کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 325
ثانیاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امی تھے اور علم کتاب اور ایمان اور اس کی حقیقت اور متعلقات سے ناواقف تھے۔ ﴿وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِِلَیْکَ رُوحًا مِنْ اَمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْرِی مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِِیْمَانُ وَلٰـکِنْ جَعَلْنَاہُ نُوْرًا نَہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَائُ مِنْ عِبَادِنَا وَاِِنَّکَ لَتَہْدِیْ اِِلٰی صِرَاطٍ مُسْتَقِیْمٍo﴾ (شورٰی: ۵۲) ’’اور اسی طرح ہم نے تیری طرف اپنے حکم سے ایک روح وحی کی ہے، تم نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے، اور نہ یہ جانتے تھے کہ ایمان کیا ہے؟ لیکن ہم نے اسے ایک روشنی بنا دیا جس سے ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں اور تم یقینا سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کرتے ہو۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس سیدھے راستے کی لوگوں کو دعوت دیتے تھے، نہ آپ کا بنایا ہوا اور متعین کردہ تھا اور نہ سنت ابراہیمی کا اصلاح شدہ ایڈیشن تھا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر اپنی نازل کردہ کتاب، قرآن میں اس راستے کا تعین کیا تھا اور اس کے نشانات اور تقاضے بیان فرمائے تھے۔ یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے بنی اور رسول بھی بھیجے ہیں سب کی دعوت ’’توحید‘‘ ہی پر مرکوز تھی اور عقیدۂ توحید میں ان کے درمیان ذرہ برابر بھی فرق نہیں تھا، مگر ہر نبی اور رسول اپنی دعوت کا مکلف وحی الٰہی کے ذریعہ بنایا گیا تھا کوئی بھی اپنے سے سابق نبی یا رسول کی سنت یا طریقے کو لے کر اور اس میں کانٹ چھانٹ کر کے دین کی حیثیت سے اس کو پیش نہیں کرتا تھا: ﴿اِنَّآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ کَمَآ اَوْحَیْنَآ اِلٰی نُوْحٍ وَّ النَّبِیّٖنَ مِنْ بَعْدِہٖ وَ اَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰہِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَعِیْسٰی وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْنُسَ وَ ہٰرُوْنَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًاo﴾ (النساء: ۱۶۳) ’’درحقیقت ہم نے تمہاری طرف وحی کی ہے، جس طرح ہم نے نوح اور اس کے بعد کے نبیوں کی طرف وحی کی تھی اور ہم نے ابراہیم، اور اسماعیل، اور اسحاق اور یعقوب اور اس کی اولاد، اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس، اور ہارون اور سلیمان کی طرف وحی کی اور ہم نے داود کو زبور دی۔‘‘ جاوید احمد غامدی نے اپنی من گھڑت اور خود ساختہ سنت کا تعارف کراتے ہوئے تحریر فرمایا ہے: ’’سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید و اصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔ قرآن میں اس کا حکم آپ کے لیے اس طرح بیان ہوا ہے: ﴿ثُمَّ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا وَ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَo﴾ (النحل: ۱۲۳) ’’پھر ہم نے تمہیں وحی کی کہ ملتِ ابراہیم کی پیروی کرو جو بالکل یک سو تھا اور مشرکوں میں سے نہ تھا۔‘‘