کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 324
روابط اور تعلقات کے بارے میں مکمل راہنمائی بھی موجود ہے۔ جن لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ عقائد اور ایمانیات کا قرآن میں ہونا ضروری ہے، اور کوئی بھی عقیدہ یا ایمانیات کا کوئی مسئلہ تنہا حدیث سے ثابت نہیں ہوتا، اس طرح جن کا یہ دعویٰ ہے کہ خبر واحد کسی عقیدہ کا ماخذ نہیں ہو سکتی وہ اپنے ان دعووں کی ایک دلیل بھی قرآن سے نہیں پیش کر سکتے اور قرآن نے کہیں اشارۃً بھی اپنے اور حدیث کے درمیان یہ درجہ بندی نہیں کی ہے اور نہ کہیں حدیث کے ماخذ شریعت ہونے کے لیے اس کے متواتر ہونے کی شرط ہی عائد کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری شریعت اپنے آخری رسول محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی ہے یہ کامل ترین شریعت ہے جو آپ سے پہلے آنے والے کسی بھی رسول کو نہیں دی گئی تھی اس لیے کہ یہ آخری اور دائمی شریعت ہے، وقتی اور عارضی نہیں ہے، یہ قیامت تک پیدا ہونے والے مسائل کا اپنے اندر حل رکھتی ہے۔ سنت کا ایک اطلاق تو اسی اسلامی شریعت پر ہوتا ہے جو قرآن و حدیث دونوں کی تعلیمات پر مبنی ہے اور اس کا دوسرا اطلاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر پر ہوتا ہے۔ سنت ابراہیمی کی روایت: قرآن اور حدیث کی شکل میں اسلامی شریعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھڑی ہوئی نہیں ، بلکہ منزل من اللہ ہے اور یہ ابراہیم علیہ السلام کی سنت کی اصلاح شدہ اور ترمیم شدہ ایڈیشن نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اور نازل کردہ ہے: ﴿ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَo﴾ (التوبۃ: ۳۳) ’’وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے اگرچہ مشرکوں کو ناگوار ہو۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں ’’ہدایت عام‘‘ ہے جس سے علم اور راہنمائی دونوں مراد ہے اسی معنیٰ میں قرآن کو ہدایت -ہدی- کہا گیا ہے؛ کیونکہ یہ علم و معرفت اور عقیدہ و نظریہ ہر ایک کو درست کرتا ہے اور پھر صحیح راستے کا پتا دیتا ہے۔ اور ’’دین حق‘‘ سے مراد توحید اور اس پر مبنی ضابطۂ حیات ہے، آیت مبارکہ یہ صراحت کر رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے اپنے رسول کو یہ دونوں چیزیں دے کر زمین میں بھیجا ہے۔ اس نے یہ دونوں چیزیں اپنے پہلے آنے والے کسی نبی یا رسول سے لے کر اور ان میں ترمیم و اضافہ کر کے یا اصلاح و تجدید کر کے لوگوں کے سامنے پیش نہیں کر دیا ہے، بلکہ یہ بذریعۂ وحی اس کو عطاء کی گئی ہیں ۔ اولاً تو سنت ابراہیمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت موجود ہی نہیں تھی؛ توحید کا تصور تک ذہنوں میں نہیں تھا، اور ختنہ، قربانی اور حج کی شکل میں جن روایات پر عمل ہو رہا تھا وہ ختنہ کے سوا سب شرک آمیز ہو چکی تھیں ۔