کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 322
کریں گے۔[1] نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نفل نمازیں ، نفل روزے اور وضو و غسل کے طریقے سنت نہیں ، بلکہ اسوۂ حسنہ ہیں ۔[2] نماز میں قعدے کے اذکار، تشہد کے اذکار اور درود وغیرہ سنت نہیں ہیں ۔[3] ہمارے رسول: جاوید احمد غامدی نے جس رسول کی تصویر پیش کی ہے وہ وہ رسول نہیں ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے پوری دنیا کے لیے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا تھا، میں نے اوپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں قرآنی عدالت کے جو فیصلے بیان کیے ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ان رسول کی صحیح تصویر دیکھی جا سکتی ہے میں ان کی ان ہرزہ سرائیوں کا ایک ایک کر کے جواب دے کر اپنا وقت ضائع نہیں کروں گا، البتہ جہاں تک سنت ابراہیم کا تعلق ہے تو اس سے متعلق ان کے مغالطوں کا تعاقب ضروری ہے، اس لیے کہ یہ حد درجہ گمراہ کن ہیں ، بقیہ دعاوی کا جواب ’’حدیث واحد سے قرآن پر اضافہ‘‘ کی مثالیں بیان کرتے ہوئے ضمناً دیتا جاؤں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب رسالت کے گوشوں کو واضح کرتے ہوئے میں نے قصداً صرف قرآنی آیات سے استدلال کیا ہے اور ہر آیت کا مفہوم آسان الفاظ میں بیان کر دیا ہے۔ ایسا میں نے اتمام حجت کے لیے کیا ہے۔ ہمارے نبی اور رسول محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب قریشی ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں آپ سلسلۂ نبوت و رسالت کی آخری کڑی ہیں ، اللہ کے تمام رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجے گئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ رسالت کی تکمیل فرما دی اور انبیاء کی آمد اور بعثت کے سلسلے کو بند کر دیا۔ محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے مطاع کامل اور متبوع کامل ہیں اور آپ کی اطاعت ہمارے اوپر ٹھیک اسی طرح فرض ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت فرض ہے، اور اللہ سے محبت کے دعوے کی صحت آپ کی کامل پیروی پر موقوف ہے۔ یعنی اگر کوئی اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ تو کرتا ہے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی نہیں کرتا ہے، یا کرتا تو ہے لیکن جزوی طور پر کرتا ہے یا اس کو اپنی من گھڑت قرآنی میزان میں تول کر اس کی پیروی کرتا ہے تو ایسا شخص بھی مومن نہیں ہے، اس لیے کہ اولاً تو اس کے اس دعوے کی کوئی دلیل قرآن میں نہیں ہے۔ ثانیاً اس کی یہ مشروط اتباع حکم قرآنی کے خلاف ہے۔ ہمارے نبی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود قرآن کی رو سے اللہ کی کتاب کے شارح، مستقل معلم و مربی، مستقل شارع اور مطلق نمونۂ تقلید ہیں اور ان تمام حیثیتوں میں مطاع مطلق ہیں اور ان میں سے آپ کی کسی بھی حیثیت کا انکار، یا اس کے بارے میں کوئی ادنیٰ سا شک بھی ایمان کی صحت کے منافی ہے۔
[1] ص ۷۴ [2] ص ۷۴-۷۵ [3] ص ۷۶