کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 320
کرنے کے لیے تحدید تخصیص، ترمیم ، تنسیخ اور تغیر کے الفاظ ایک ساتھ استعمال کرتے ہیں ۔ یہ آیت مبارکہ یہ بھی بتا رہی ہے کہ قرآن کی وہی تفسیر، توضیح، تفصیل اور تبیین قابل قبول ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے، دوسروں کی تفسیر و توضیح کی صحت و سقم معلوم کرنے کا ذریعہ اور کسوٹی ’’تبیین نبوی‘‘ ہے۔ ۷۔ ساتواں فیصلہ: ﴿وَاِِنَّکَ لَتَہْدِیْ اِِلٰی صِرَاطٍ مُسْتَقِیْمٍo صِرَاطِ اللّٰہِ الَّذِیْ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ﴾ (شوری: ۵۲-۵۳) ’’اور یقینا تم ایک سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کرتے ہو اس اللہ کے راستے کی طرف جس کی ملک ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ہدایت دینے اور راہنمائی کرنے کے فعل کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی ہے، جو یقینا اور آپ کے اسلوب میں : ’’لا ریب، تلاوتِ قرآن اور تبلیغ قرآن کے علاوہ ہے، خود دعائے ابراہیمی میں بھی تلاوتِ آیات اور تعلیم کتاب و حکمت کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے۔ (البقرۃ: ۱۲۹) معلوم ہوا کہ سورۂ شوریٰ کی اس زیر نظر آیت میں جس ہدایت کو آپ کی طرف منسوب کیا گیا ہے وہ کتاب اللہ کی آیات کی تلاوت کے ساتھ ان کے کافی و شافی بیان اور آپ کے اپنے تشریعی احکام پر بھی مشتمل تھی، یہ اس لیے کہ سورۂ بقرہ کی آیات ۱۲۹، ۱۵۱ سورۂ آل عمران کی آیت ۱۶۴، اور سورۂ جمعہ کی آیت ۲ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو فرائض منصبی بیان کیے گئے ہیں ان میں تلاوتِ آیات کے بعد الگ سے تعلیم کتاب و حکمت کا ذکر آیا ہے اور قرآن کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے فرائض رسالت کے ضمن میں جو اعمال بھی انجام دیتے تھے ان سب میں بلا استثنا آپ غیر مشروط مطاع تھے، مطاع ہیں اور قیامت تک مطاع رہیں گے۔ یہ ہیں وہ بعض آیات بینات جو قرآن کی طرح حدیث یا سنت کے ماخذ شریعت ہونے پر صریح اور قطعی دلیل ہیں ، اور یہ وہ میزان اور فرقان بھی ہیں جن کی روشنی میں ہم آپ کے اور آپ کے ہمنوا دوسرے ’’مجددین امت‘‘ کے افکار و نظریات میں حق اور باطل اور غث اور سمین کے درمیان فرق اور تمیز کر سکتے ہیں ۔ غامدی کا رسول: قارئین! اس عنوان پر آپ کو تعجب نہ ہو، اس سے قبل متکلمین کے عقائد بیان کرتے ہوئے میں نے یہ ذیلی عنوان قائم کیا ہے: متکلمین کے خدا کا کوئی وجود نہیں ہے۔ میں نے ایسا اس وجہ سے کیا ہے کہ متکلمین نے اللہ تعالیٰ کی جو منفی صفات بیان کی ہیں وہ ان کی اپنی گھڑی ہوئی ہیں ان صفات سے موصوف نہ کوئی معبود ہے، نہ ہو سکتا ہے اور نہ معبود ہونے کا مستحق ہے۔