کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 32
دینا مناسب خیال کرتا ہوں جس میں تواتر سے متعلق بہت سی مفید باتیں آگئی ہیں ، فرماتے ہیں :
((والصحیح ما علیہ الاکثرون: اَن العلم یحصل بکثرۃ المخبرین تارۃ، وقد یحصل بصفاتہم لدینہم وضبطہم، وقد یحصل بقرائن تحتف بالخبر، فیحصل العلم بمجموع ذلک، وقد یحصل العلم بطائفۃ دون اُخری…اَما عدد ما یحصل بہ التواتر، فمن الناس من جعل لہ عددا محصوراً، فقیل: اکثر من اَربعۃ، وقیل: اثنا عشر، وقیل: أربعون، وقیل: ثلاثمائۃ وثلاثۃ عشر، وقیل: غیر ذلک، وکل ہذہ الاَقاویل باطلۃ لتکا فئہا فی الدعوی۔))
’’اور صحیح بات جس پر اکثریت کا اتفاق ہے یہ ہے کہ: علم کبھی تو خبر دینے والوں کی کثرت سے حاصل ہوتا ہے اور کبھی ان کی دینداری اور ضبط سے، اور کبھی ان قرائن اور علامتوں سے جو خبر کے ساتھ ہوتی ہیں ، اور ان سب کے مجموعہ سے بھی علم حاصل ہوتا ہے اور بسا اوقات ایک جماعت کی خبر سے علم حاصل ہوتا ہے دوسری کی نہیں ، رہی وہ تعداد جس سے تواتر کو وجود ملتا ہے، تو کچھ لوگوں نے اس کے لیے متعین تعداد مقرر کر دی ہے، چنانچہ کہا گیا ہے کہ یہ مقدار چار سے زیادہ ہونی چاہیے، اور کہا گیا ہے کہ بارہ ہونی چاہیے، اور کہا گیا ہے کہ: چالیس ہونی چاہیے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ: تین سو تیرہ، اس کے علاوہ بھی اقوال ملتے ہیں ، مگر اپنے دعووں میں برابر ہونے کی وجہ سے یہ سارے اقوال باطل ہیں ۔‘‘ [1]
امام ابن تیمیہ کے اس قول سے یہ بات عیاں ہو گئی کہ تواتر سے متعلق کوئی بھی قول قابل اخذ واعتبار نہیں ہے ایسی صورت میں کسی حدیث متواتر کے وجود کا دعویٰ باطل قرار پایا۔ اس وضاحت کے بعد ذرا ڈاکٹر برنی کے تیور ملاحظہ فرمائیے:
ہمارے عقیدے کی وضاحت اور تائید بلاشبہ خبر واحد سے مدد ملتی ہے، مگر عقیدہ کی مبادیات ہمیں قرآن حکیم اور حدیث متواتر سے حاصل ہوتی ہیں ۔ ہماری معلومات کے مطابق عقیدے اور ایمان کا کوئی بھی بنیادی اصول ایسا نہیں ہے جو مجرد خبر واحد سے ہمیں ملا ہو اور جس کی بنیاد پر کسی شخص کے مسلمان یا کافر ہونے کا فیصلہ ہوتا ہو، اگر عابدی صاحب ایسی کسی خبر سے واقف ہیں تو ہمیں ضرورت آگاہ فرمائیں ۔ (روشنی: ۲۷، جمادی الاول ۱۴۳۰ھ)
میں آگے حدیث واحد کے حجت ودلیل ہونے کی مثالیں دینے والا ہوں ، لیکن چونکہ ڈاکٹر برنی نے چیلنج کر دیا ہے اس لیے ان کا جواب اسی وقت دے دینا چاہتا ہوں تاکہ بات صاف ہو جائے اور ان کا مبلغ علم بھی سامنے آ جائے۔
[1] فتاویٰ ص: ۴۸ ج ۱۸۔