کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 319
سنت- سے رجوع نہ کرے وہ اپنے دعویٔ ایمان میں جھوٹا ہے۔ اور اس زیر بحث آیت میں ایمان کے جانچنے اور پرکھنے کی تین کسوٹیاں بیان کی گئی ہیں : ۱۔ تمام نزاعی معاملات میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم اور فیصلہ کنندہ بنانا اور ماننا، یعنی جو آپ کے سوا کسی اور کو حکم بنائے وہ مومن نہیں ہے۔ ۲۔ آپ کے فیصلے پر دل میں کوئی تنگی، انقباض اور حرج محسوس نہ کرنا، یعنی جس کے دل میں آپ کے فیصلے پر دلی تنگی، انقباض اور حرج پیدا ہو وہ بھی مومن نہیں ہے۔ ۳۔ آپ کے حکم اور فیصلے پر سرتسلیم خم کر دینا اور برضا و رغبت اس کو مان لینا یعنی اگر کسی نے سرکشی دکھائی اور آپ کا حکم سن کر سر تسلیم خم نہیں کیا تو وہ بھی مومن نہیں ۔ ۵۔ پانچواں فیصلہ: ﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًاo﴾ (الاحزاب:۲۱) ’’درحقیقت تمہارے لیے رسول اللہ کے اندر بہترین نمونہ ہے، اس کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کی امید رکھتا ہو۔‘‘ اس آیت مبارکہ کا مطلب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی عقیدہ، قول، فعل اور ترک فعل میں ہمارے لیے نمونۂ عمل ہیں : ہمارا عقیدہ بے کم و کاست وہی ہو جو آپ کا تھا۔ شریعت کی شکل میں جن اقوال اور ارشادات کی نسبت آپ سے صحیح ہو ان میں ہم کوئی کمی بیشی نہ کریں اور سب کو ماخذ شریعت مانتے ہوئے ان پر عمل کریں ۔ آپ کی سیرت پاک کی پیروی ہمارا نصب العین ہو اور ہم کسی بھی پیر و مرشد کی سیرت کو یہ درجہ نہ دیں اور ترک فعل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہترین نمونہ ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ عبادات کے قبیل کے کسی بھی ایسے فعل کے ہم قریب نہ جائیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ہے۔ ۶۔ چھٹا فیصلہ: ﴿وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَo﴾ (النحل: ۴۴) ’’اور ہم نے تمہاری طرف ذکر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے لیے اسے بیان کر دو جو ان کی طرف تدریجاً نازل کیا جاتا رہا ہے۔‘‘ یہ آیت بتا رہی ہے کہ قرآن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کرنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ آپ اسے لوگوں کے عمل کے لیے بیان کرتے جائیں اس میں قرآن کی تفسیر، تشریح، تبیین اور تخصیص سب داخل ہے، جیسا کہ حدیث واحد سے قرآن پر اضافے کے تحت مثالوں سے اس کو واضح کروں گا، تبیین میں ’’تنسیخ‘‘ داخل نہیں ہے۔ غامدی لوگوں کو حدیث سے متنفر