کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 318
دستور حیات بنانا یکساں درجے میں فرض ہے۔ بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ آیت کا تعلق ’’فے‘‘ کی تقسیم سے ہے اور آیت کا مدعا یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’فے‘‘ کے مال میں سے جو جس کو دے دیا اسے وہ بطیب خاطر لے لینا چاہیے۔ بلاشبہ آیت کا تعلق ’’فے‘‘ کی تقسیم سے ہے، لیکن آیت میں ایک شرعی قانون بیان کیا گیا ہے اور اس کا حکم فے کی تقسیم اور اسے قبول کرنے تک محدود نہیں ہے، بلکہ عام ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان تمام اوامر و نواہی کو شامل ہے جو آپ سے صادر ہوئے ہیں اور چونکہ دونوں فعل: آتی اور ’’نہی‘‘ کی نسبت صریح لفظوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی گئی ہے اس لیے یہ حکم سنت یا حدیث پر عمل کے لیے خاص ہے اور اس حکم میں قرآن پر عمل صرف اس اعتبار سے داخل ہے کہ یہ قرآنی حکم ہے، جس طرح رسول کی اطاعت و اتباع کے تمام احکام قرآنی ہیں ، اور آپ کو مطاع اور متبوع بنانا قرآنی احکام کی تعمیل ہے۔ اس آیت میں بیان کردہ حکم کے عام ہونے یا شرعی قانون اور قاعدہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل اس کا اسلوب بیان ہے، کیونکہ اگر یہ حکم صرف فے کی تقسیم اور اسے قبول کرنے سے متعلق ہوتا تو اللہ تعالیٰ نے آتی کے بالمقابل ’’منع، حجب، حظر، حرم وغیرہ استعمال کیا ہوتا، لیکن ’’نہی‘‘ آتی کی ضد کے طور پر کبھی استعمال نہیں ہوتا، یہی قرآن کا اعجاز ہے کہ ایک خاص واقعہ کا حکم بھی بیان کر دیا اور صرف ایک فعل کے ذریعہ اس کو ایک شرعی قاعدہ بھی قرار دے دیا۔ ۴۔ چوتھا فیصلہ: ﴿فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ (النساء: ۶۵) ’’پس تمہارے رب کی قسم لوگ مومن نہیں ہو سکتے تا آنکہ تم کو اپنے درمیان پھوٹ پڑنے والے جھگڑے میں اپنا حکم بنا لیں ، پھر جو فیصلہ تم کرو اس سے اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور سربسر تسلیم کر لیں ۔‘‘ ذرا اسلوب بیان پر غور کیجیے، کلام کاآغاز حرف تنبیہ: ’’لا‘‘ سے فرمایا اور قسم کے ذریعہ اس کی تاکید فرما دی، اور قسم بھی کس کی؟ رب محمد کی، اس لیے کہ حکم کا تعلق آپ کو تمام تنازعات اور جھگڑوں میں بلا شرکت غیرے حکم اور فیصلہ کنندہ بنانے سے ہے، لہٰذا رب کی اضافت آپ کی طرف کر کے قسم کھائی ہے جس سے آپ کی اطاعت کی تاکید در تاکید ہو گئی ہے۔ اسی سورۂ نساء کی آیت نمبر ۵۹ میں اللہ و رسول کی اطاعت کا حکم دینے کے بعد نزاعی مسائل اور امور کا حکم معلوم کرنے کے لیے ان کو اللہ و رسول کی طرف پھیر دینے اور لوٹا دینے کا حکم دیا گیا ہے اور بطور تحدی اور چیلنج فرمایا گیا ہے: ﴿اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ﴾ (النساء: ۵۹) ’’اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ اس سے یہ مطلب نکلا کہ جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان کا تو مدعی ہو، لیکن نزاعی مسائل میں اللہ و رسول -کتاب و