کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 317
’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر بلند نہ کرو اور نہ اس سے آپس میں ایک دوسرے سے بلند آواز میں اپنے بات کرنے کی طرح، بلند آواز میں بات کرو، ایسا نہ ہوکہ تمہارے اعمال برباد ہو جائیں اور تمہیں شعور بھی نہ ہو۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر آواز بلند نہ کرنے اور اونچی آواز میں آپ سے بات نہ کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اس کا تعلق عام گفتگو سے بھی ہے اور ایسے اوقات سے بھی ہے جب آپ کوئی حدیث بیان کرتے تھے اور آپ کی وفات کے بعد یہ حکم کلی طور پر حدیث کی سماعت سے متعلق ہے یعنی اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان سے کوئی حدیث سنے تو خاموش ہو جائے اور پوری توجہ اور شوق سے اسے سنے، جب یہ حکم حدیث سننے کے وقت کے لیے ہے تو پھر اسے بسر و چشم قبول کرنے کا حکم آپ سے آپ معلوم ہو گیا، چنانچہ قاضی ابوبکر بن العربی احکام القرآن میں تحریر فرماتے ہیں : ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت زندگی اور بعد از موت دونوں حالتوں میں یکساں ہے، آپ کی وفات کے بعد آپ کا منقول کلام اپنی عظمت و بلندی میں آپ کے اپنے الفاظ میں آپ سے سنے جانے والے کلام کی طرح ہے۔ لہٰذا جب آپ کا ارشاد پڑھا جائے تو موقع پر موجود ہر شخص پر فرض ہے کہ وہ اس پر اپنی آواز بلند نہ کرے اور اس سے اعراض نہ برتے جس طرح یہ اس وقت آپ کی مجلس میں لازمی تھا جب آپ اپنے الفاظ میں اپنا ارشاد بیان فرماتے تھے، اللہ تعالیٰ نے مرور زمانہ کے ساتھ کلام نبی کی اس حرمت کی بقاء و دوام کی تاکید فرما دی ہے: ﴿وَ اِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَo﴾ (الاعراف: ۲۰۴) ’’جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو۔‘‘ اور نبی کا کلام بھی وحی ہے اور اس کو بھی وہی حرمت حاصل ہے جو قرآن کو حاصل ہے۔‘‘[1] ۳۔ تیسرا فیصلہ: سورۂ حشر میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَمَا آتَاکُمْ الرَّسُوْلُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا﴾ (الحشر: ۷) ’’اور رسول جو تمہیں دے اسے لے لو اور جس سے روکے رک جاؤ۔‘‘ یہ ان لوگوں کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے جو حدیث کی شرعی حیثیت کے منکر ہیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صرف قرآن ہی نہیں دیا ہے، بلکہ حدیث اور سنت بھی دی ہے اور اس آیت مبارکہ کی رو سے دونوں کو لینا، قبول کرنا اور
[1] القسم الرابع ۱۱۱، تفسیر سورۃ الحجرات، المسألۃ الثانیۃ۔