کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 316
۱۔ پہلا فیصلہ: ﴿یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌo﴾ (الحجرات: ۱) ’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور رسول سے آگے نہ جاؤ اور اللہ سے ڈرو، درحقیقت اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کو جو حکم دیا ہے اس سے پہلے ان کو، ان کی صفت ایمان سے موصوف کر کے مخاطب بنایا ہے اس طرح آنے والا حکم ان کی اس صفت کی صحت کے لیے ایک کسوٹی اور معیار بن گیا ہے بایں معنیٰ کہ اس حکم کی تعمیل تمہارے ایمان کی صحت کی دلیل اور عدم تعمیل صفتِ ایمان سے تمہارے عاری ہونے کی دلیل ہے۔ دوسرے لفظوں میں اللہ و رسول سے آگے نہ جانا تمہارے مومن ہونے کا لازمی تقاضا ہے۔ چونکہ آیت میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں سے آگے جانے اور پیش قدمی کرنے سے روکا گیا ہے، لہٰذا اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ و رسول کے حکم اور قول پر کسی بھی انسان کے حکم اور قول کو مقدم نہ کرو اللہ تعالیٰ تو ماورائے حس و عقل ہے اس لیے اس سے آگے نہ جانے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ کتاب اللہ کے کسی حکم پر کوئی اور حکم مقدم نہ کرو۔ البتہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک میں تو یہ حکم آپ کی زبان مبارک سے جاری ہونے والے احکام و ہدایات یا آپ کے حوالہ سے دوسروں سے ملنے والے احکام و ہدایات کے متعلق تھا، لیکن آپ کی رحلت کے بعد قرآن کی طرح یہ حیثیت حدیث یا سنت کو منتقل ہو گئی ہے۔ یہ آیت سورۂ نساء کی آیت نمبر ۵۹ کے اس فقرہ کی طرح ہے: ﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ﴾ (النساء: ۵۹) ’’اور اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ و رسول کی طرف پھیر دو۔‘‘ تو جہاں تک متنازع امور کو اللہ کی طرف پھیر دینے اور اس کے پاس لے جانے کا معاملہ ہے، تو یہ کسی بھی زمانے میں کسی کے لیے ممکن نہیں تھا، صوفیا کی بات الگ ہے اور اس کا مطلب یہی تھا کہ اس طرح کے معاملات کا حکم اس کی کتاب میں تلاش کرو، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک میں اپنے نزاعی امور آپ کی خدمت میں لے جاتے تھے، لیکن آپ کی وفات کے بعد یہ حیثیت حدیث یا سنت کو حاصل ہو گئی ہے۔ ۲۔ دوسرا فیصلہ: سورۂ حجرات کی دوسری آیت ہے: ﴿یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَo﴾ (الحجرات: ۲)