کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 315
تحدید و تخصیص یا اس میں کوئی ترمیم و تغیر نہیں کر سکتا دین میں ہر چیز کے رد و قبول کا فیصلہ اس کی آیات بینات ہی کی روشنی میں ہو گا، ایمان و عقیدہ کی ہر بحث اس سے شروع ہو گی اور اس پر ختم کر دی جائے گی، ہر وحی، ہر الہام، ہر القاء، ہر تحقیق اور ہر رائے کو اس کے تابع قرار یا جائے گا۔ ۲۔ اس کے الفاظ کی دلالت اس کے مفہوم پر بالکل قطعی ہے … اس کا مفہوم وہی ہے جو اس کے الفاظ قبول کر لیتے ہیں وہ نہ اس سے مختلف ہے نہ متبائن۔[1] یہ دونوں دعوے کرنے کے بعد انہوں نے فرمایا ہے: ’’یہ دونوں باتیں قرآن کے میزان اور فرقان ہونے کا لازمی تقاضا ہیں ان کے بارے میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں ۔‘‘[2] میں نے اوپر قرآن پاک کے میزان، فرقان اور مہیمن ہونے کا مفہوم خود قرآنی آیات کی روشنی میں واضح کر دیا ہے اور یہ بھی بیان کر دیا ہے کہ ’’بینات‘‘ کیا ہیں اور کن امور سے متعلق ہیں اس طرح ان الفاظ سے اپنے دعووں پر ان کا استدلال بے محل ہے۔ رہے ان کے یہ دونوں دعوے تو ان میں سے دعوی نمبر (۱) کا ما حصل یہ ہے کہ قرآن سے باہر کی اس کی ہر تشریح، ہر تبیین اور ہر تخصیص مردود ہے قطع نظر اس کے کہ ایسا بذریعہ وحی کیا جائے یا یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کریں یا آپ کے علاوہ کوئی اور اس مسئلہ میں حدیث اور ائمہ فقہ، ائمہ حدیث، ائمہ تصوف اور ائمہ کلام کے اقوال و آراء میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اور دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ اپنے معانی اور مفاہیم میں اس قدر واضح ہیں کہ قرآن سے باہر کی کسی تشریح و تبیین کی ضرورت نہیں ۔ حدیث سے متعلق ان کا یہ نقطۂ نظر بالکل واضح ہے، یعنی حدیث ماخذ شریعت نہیں ۔[3] موصوف نے اپنی اس کتاب میں بعض قرآنی احکام کی توضیح و تفصیل سے متعلق بعض احادیث بطور مثال نقل کی ہیں اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ قرآن کا ایک عام طالب علم بھی یہ قرآنی آیات سن کر ان کے سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا۔ [4] انہیں باتوں کی وجہ سے میں نے یہ مناسب اور ضروری سمجھا کہ ان کے ان افکار کو قرآن کی عدالت میں پیش کر کے ان کے بارے میں اس کا حکم اور فیصلہ حاصل کیا جائے، کیونکہ اولاً تو نزاع ہونے کی صورت میں ایسا کرنے کا حکم قرآن ہی نے دیا ہے۔ ثانیاً ان کا دعویٰ ہے کہ وہ قرآن کو شرعی ماخذ تسلیم کرتے ہیں ۔ قرآن نے نزاعی مسائل میں اللہ اور رسول دونوں سے رجوع کرنے کا حکم دیا ہے، لیکن چونکہ غامدی حدیث کی شرعی اور قانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے اس لیے میں صرف وہ فیصلے بیان کروں گا جو قرآن نے جاری کیے ہیں ۔
[1] ص ۲۶-۲۷ [2] ص ۲۷ [3] ص ۷۷ [4] ص ۴۵