کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 312
مطلب یہ ہے کہ قرآن لوگوں کو ہدایت دینے والی اور اپنی خبروں کے حق و صدق ہونے اور اپنے احکام کے عادلانہ ہونے پر دلالت کرنے والی واضح دلیلوں پر مشتمل کتاب ہے، اور اس کے ذریعے سابقہ آسمانی کتابوں کے حق و باطل میں تمیز بھی کی جا سکتی ہے۔ قرآن کی صفت ’’مہیمن‘‘ کی وضاحت اوپر کی جا چکی ہے، یعنی سابقہ آسمانی کتابوں پر حاکم، نگراں اور ان میں حق و باطل کو معلوم کرنے اور جاننے کا ذریعہ جس سے یہ بھی لازمی قرار پایا کہ معیار حق صرف یہی قرآن ہے، کیونکہ یہ ہر تبدیلی اور ہر آمیزش سے پاک ہے۔ البینات: بینات: بینہ کی جمع ہے یہ واحد اور جمع دونوں صورتوں میں قرآن پاک میں آیا ہے، اور ہر صورت میں بطور صفت آیا ہے، اگر واحد کے صیغے میں آیا ہے تو موصوف ’’آیۃ‘‘ ہے اور اگر جمع آیا ہے تو موصوف ’’آیات‘‘ ہے اور اس کے معنی ہیں : حد درجہ واضح اور ظاہر۔ واحد کے صیغے میں یہ ۱۹ مرتبہ آیا ہے اور جمع کے صیغے میں ۵۲ مرتبہ۔ ابھی میں نے عرض کیا کہ ’’بینہ‘‘ یا بینات‘‘ آیۃ یا آیات کی صفت کے طور پر آیا ہے اور قرآن پاک میں اپنے استعمال کے اعتبار سے ’’آیۃ‘‘ کے معنی علامت، نشانی اور دلیل کے ہیں اور مراد تکوینی یا شرعی دلیل ہے اور اپنی صفت بینہ کے ساتھ اس کے معنیٰ ہیں : تکوینی یا شرعی امور پر دلالت کرنے والی نہایت واضح اور صریح دلیل۔ علامت اور نشانی، واحد اور جمع دونوں صورتوں میں اس کا استعمال ان آیتوں کے لیے بھی ہوا ہے جو سابق رسولوں کے ذریعہ ان کی امتوں کے لیے بیان کی گئیں ، خاص طور پر بنو اسرائیل کے لیے اور اس امت کے لیے بھی۔ سب سے زیادہ بنو اسرائیل کو واضح اور ناقابل تردید دلائل اور آیات کے ذریعہ قبول حق پر آمادہ کرنے کا ذکر آیا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دلیل ہے: ﴿سَلْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ کَمْ اٰتَیْنٰہُمْ مِّنْ اٰیَۃٍ بَیِّنَۃٍ﴾ (البقرۃ: ۲۱۱) ’’بنو اسرائیل سے پوچھو ہم نے انہیں کتنی واضح نشانیاں دی ہیں ۔‘‘ نتیجہ: مذکورہ بالا بحث جن حقائق پر منتج ہوتی ہے وہ حسب ذیل ہیں : ۱۔ قرآن پاک سابقہ آسمانی کتابوں کے حق میں میزان عدل، ان کے حق و باطل میں فرق کرنے والی، ان میں کیا حق ہے اور کیا باطل؟ ان کی پرکھ اور جانچنے کا معیار اور کسوٹی اور سابق رسولوں اور ان کی تعلیمات اور آخری نبی و رسول محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت، صدق رسالت اور کمال شریعت پر واضح اور روشن دلائل سے عبارت ہے۔ ۲۔ باطل کی آمیزش صرف سابقہ کتابوں اور ان میں بیان کردہ شرعی اور عقائدی احکام میں ہوئی ہے جن کو جانچنے اور پرکھنے کا ذریعہ قرآن پاک ہے جو نہ کسی تبدیلی اور تحریف سے دوچار ہوا ہے نہ اس کی کوئی آیت، بلکہ کوئی حرف