کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 31
دے دیا، پھر ایسی رو چل پڑی کہ فقہا بھی یہی راگ الاپنے لگے۔ اسی کے ساتھ انہوں نے راوی فقیہہ اور راوی غیر فقیہہ کی اصطلاح بھی گھڑ لی اور جس حدیث کو اپنے امام کی رائے اور قیاس کے خلاف پایا اس کو راوی غیر فقیہہ کی روایت کہہ کر ردّ کر دیا۔
معتزلہ اور فقہائے احناف اور متکلمین نے خبر واحد اور راوی غیر فقیہہ کی روایت کے انکار کا جو نعرہ لگایا تھا وہی نعرہ آج تک منکرین حدیث لگا رہے ہیں ، جبکہ ان میں سے کسی ایک نے بھی نہ پہلے اور نہ آج اپنے اس دعویٰ کی دلیل میں قرآن پاک یا حدیث کی کسی عبارت کی مثال دینے کی زحمت کی۔ آگے میں خبر واحد کا انکار کرنے والوں یا اس کو مشروط شکل میں ماننے والوں کی جو مثالیں دون گا ان سے یہ اندازہ ہو جائے گا کہ حدیث رسول کے دشمن صرف روایتی منکرین حدیث ہی نہیں ہیں ۔ بلکہ ان کے علاوہ ایسے بھی بہت سے لوگ ہیں جن کے سروں پر بحث وتحقیق، حمایت سنت اور امت کی پیشوائی کے مصنوعی تاج بھی ہیں بایں ہمہ ان کی زبان وقلم سے ’’خبر واحد‘‘ کے خلاف جو باتیں نکلی ہیں ویسی باتیں کہنے کی جرأت مستشرقین اور مبشرین نے بھی نہیں کی ہے۔
خبر متواتر کا ہوّا:
میں سطور بالا میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ قرآن وحدیث میں حدیث واحد یا حدیث متواتر کی اصطلاح استعمال نہیں ہوئی ہے، اپنی گزشتہ بات پر استدراک کرتے ہوئے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں تک حدیث واحد کی اصطلاح کا مسئلہ ہے تو اصطلاح کے طور پر نہ سہی مفہوم کے اعتبار سے قرآن وحدیث میں اس کا ذکر آیا ہے جس کی مثالیں میں اس وقت دوں گا جب حدیث واحد کے دلیل وحجت ہونے پر بحث کروں گا۔
رہی حدیث متواتر تو یہ سراسر من گھڑت اور خانہ ساز ہے اور یہ ہوّا اس لیے کھڑ ا کیا گیا ہے تاکہ حدیث کی شرعی حیثیت کا انکار کیا جا سکے۔ اور چونکہ حدیث متواتر حدیث واحد کی ضد ہے یا اس کی مقابلی قسم اس لیے جب بھی کسی نے حدیث کی اقسام بیان کیں تو حدیث واحد یا خبر واحد کے بالمقابل حدیث متواتر یا خبر متواتر کا بھی ذکر کیا اس طرح یہ اصطلاح عام ہو گئی اور اس کا ذکر ان علماء کی کتابوں میں بھی ہونے لگا جو ہر صحیح حدیث کو شرعی دلیل اور حجت مانتے ہیں ، لیکن آج تک کسی بھی امام حدیث یا عالم یا مصنف نے حدیث متواتر کی کوئی مثالی نہیں دی ہے اور دے بھی کیسے سکتا ہے۔ جبکہ اس حدیث کی تعریف اور اس کے راویوں کی تعداد پر دو ماہرین کا بھی اتفاق نہیں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بلاشبہ متقدمین محدثین کے علوم کے جامع اور بجا طور پر امام الائمہ تھے، انہوں نے بھی حدیث متواتر کے منکرین کا جواب دیتے ہوئے یہ دعویٰ کرنے پر اکتفا کیا ہے کہ متواتر احادیث بہت ہیں ، پھر مثال میں وہ حدیث ذکر کی ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ گھڑنے کی وعید آئی ہے، مگر یہ واضح نہیں کیا ہے کہ یہ حدیث متواتر کیوں ہے؟ عجیب بات یہ ہے کہ جس شخص نے بھی حدیث متواتر کا ذکر چھیڑا ہے، مثال میں اسی حدیث کا ذکر کیا ہے، میں یہاں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول نقل کر