کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 309
۴۔ قرآن کا ہر لفظ اپنے مفہوم پر قطعی الدلالہ ہے۔ اب میں ان میں سے ہر دعوی کی نکارت بیان کروں گا۔ قرآن کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص کا مجاز کوئی نہیں : غامدی صاحب کی پوری عبارت یوں ہے: قرآن سے باہر کی کوئی وحی خفی یا جلی، یہاں تک کہ خدا کا وہ پیغمبر بھی جس پر یہ نازل ہوا ہے اس کے کسی حکم کی تحدید یا تخصیص یا اس میں کوئی ترمیم و تغیر نہیں کر سکتا۔ یہ دعویٰ انہوں نے قرآن کے کتب سابقہ پر ’’مہیمن‘‘ اور نگراں ہونے کے تناظر میں کیا ہے، اس کے بعد انہوں نے یہی بات قرآن کے اپنے مفہوم پر قطعی الدلالہ ہونے کے نتیجے کے طور پر دہرائی ہے[1] اور ص ۴۱ پر حدیث اور قرآن کے زیر عنوان رقم طراز ہیں : حدیث سے قرآن کے نسخ اور اس کی تحدید و تخصیص کا یہ مسئلہ محض سوئے فہم اور قلت تدبر کا نتیجہ ہے اس طرح کا کوئی نسخ یا تحدید و تخصیص سرے سے واقع ہی نہیں ہوئی۔‘‘ انہوں نے اولاً تو خلط مبحث کرتے ہوئے تحدید و تخصیص، ترمیم و تغیر اور نسخ وغیرہ کے الفاظ ایک ہی سلسلۂ بیان میں جمع کر دیے ہیں ثانیاً انہوں نے یہ دعویٰ اس بنیاد پر کیا ہے کہ قرآن محافظ و نگراں ہے اور میزان و فرقان ہے جس کا تقاضا ہے کہ اس کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص نہ کی جائے۔ ان کی یہ بات خود ایک دعویٰ ہے جو دلیل نہیں بن سکتا۔ ثالثاً اپنے اس دعوے پر قرآن سے کوئی صریح دلیل دینے کے بجائے ان جانوروں کی لمبی فہرست پیش کر دی ہے جن میں سے کچھ کا کھانا حلال ہے اور کچھ کا حرام۔ حدیث سے قرآن کے نسخ کا مسئلہ مختلف فیہ ہے اور کوئی ایسی قابل اعتماد حدیث بھی نہیں ہے جس سے عملی طور پر حدیث سے قرآن کا نسخ کا پتا چلتا ہو اور چونکہ میں اس کتاب میں مسلمہ امور سے بحث کرتا ہوں اس لیے اس مسئلہ کو خارج از موضوع قرار دیتے ہوئے اس سے صرف نظر کرتا ہوں ۔ مگر اسی کے ساتھ یہ بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ حدیث سے قرآن کے بیان، تفسیر اور تخصیص میں اس کے حکم کی ترمیم، تغییر اور نسخ داخل نہیں ہے۔ غامدی کا دعویٰ ہے کہ قرآنی احکام کا بذریعہ وحی یا بذریعہ رسول ناقابل تحدید و تخصیص ہونا اور اس کے الفاظ کی دلالت کا اس کے مفہوم پر بالکل قطعی ہونا اس کے میزان اور فرقان ہونے کا لازمی تقاضا ہے۔ اس لیے میں مناسب خیال کرتا ہوں کہ پہلے میں قرآن میں میزان اور فرقان کے معنیٰ ان کے سیاق و سباق اور نظم کلام کی روشنی میں متعین کر دوں ، پھر ان کے دعوے کی حقیقت بیان کروں ۔ میزان اور فرقان کیا ہے؟ غامدی صاحب فرماتے ہیں :
[1] ص ۲۸