کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 308
سارے رسول اپنی رسالت میں سچے تھے۔ غامدی نے سورۂ مائدہ کی آیت نمبر ۴۸ میں موجود لفظ ’’مُہَیمِن‘‘ سے قرآن کے میزان اور فرقان ہونے پر جو استدلال کیا ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ قرآن سابقہ کتب آسمانی پر محافظ اور نگراں ہے، نہ کہ حدیث پر، یہ لفظ قرآن پاک میں دو جگہ آیا ہے؛ سورۂ حشر، آیت ۲۳ میں اور سورۂ مائدہ کی آیت ۴۸ میں ، اللہ تعالیٰ کے لیے یہ بطور اسم صفت کے آیا ہے اور اس کا شمار ’’اسمائے حسنیٰ‘‘ میں ہوتا ہے اور قرآن کے لیے بطور صفت اور صفت اور اسم صفت میں جو فرق ہے اس سے اہل علم واقف ہیں ۔ اس لفظ کے مترادفات ہیں : رقیب (نگراں ) مؤتمن (قابل اعتماد، معتمد علیہ) شہید (گواہ) حاکم۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے ’’کچلی‘‘ کے دانت دکھاتے ہوئے فرمایا ہے: ’’قرآن سے باہر کی کوئی وحی خفی یا جلی، یہاں تک کہ خدا کا وہ پیغمبر بھی جس پر یہ نازل ہوا ہے اس کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص یا اس میں کوئی ترمیم و تغیر نہیں کر سکتا۔ دین میں ہر چیز کے رد و قبول کا فیصلہ اس کی آیات ’’بینات‘‘ کی روشنی میں ہو گا، ایمان و عقیدہ کی ہر بحث اس سے شروع ہو گی اور اسی پر ختم کر دی جائے گی۔‘‘ دوسری یہ کہ اس کے الفاظ کی دلالت اس کے مفہوم پر بالکل قطعی ہے یہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے پوری قطعیت کے ساتھ کہتا ہے اور کسی معاملہ میں بھی اپنا مدعا بیان کرنے سے ہرگز قاصر نہیں رہتا، اس کا مفہوم وہی ہے جو اس کے الفاظ قبول کر لیتے ہیں وہ نہ اس سے مختلف ہے نہ متبائن۔ [1] موصوف نے اس عبارت کے ذریعہ نثر میں شاعری فرمائی ہے، وہ اپنے ما فی الضمیر کی ادائیگی میں صحیح اور موزوں اور مناسب الفاظ کے انتخاب سے بھی قاصر رہے ہیں ، اور انہوں نے اپنے اس پر تکلف کلام میں جو دعوے کیے ہیں ان میں سے کسی کی دلیل بھی قرآن سے نہیں پیش کر سکتے۔ نیز ان کے اس ارشاد سے اللہ کا رسول ’’عضو معطل‘‘ بن کر رہ جاتا ہے۔ میں موصوف کی اس عبارت کے ضروری اور اہم اجزاء کا، جو دراصل ان کے عقیدے کی نمائندگی کرتے ہیں تجزیہ کر کے ہر ایک کا مالہ و ما علیہ دکھاؤں گا، تاکہ یہ واضح کر سکوں کہ سابق منکرین حدیث کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہوئے وہ انشا پردازی کے پردے میں کون سا زہر پھیلانا چاہتے ہیں ۔ غامدی کے دعاوی ایک نظری میں : ۱۔ قرآن کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص کا مجاز کوئی نہیں ، رسول بھی نہیں ۔ ۲۔ دین میں ہر چیز کے رد و قبول کا فیصلہ قرآن کی آیات بینات ہی کی روشنی میں ہو گا۔ ۳۔ ایمان و عقیدہ کی ہر بحث اسی سے شروع ہو گی اور اسی پر ختم کر دی جائے گی۔
[1] ص ۲۶-۲۷