کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 307
الْاِنْجِیْلِ یَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہٰہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْہِمْ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ بِہٖ وَ عَزَّرُوْہُ وَ نَصَرُوْہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo﴾ (الاعراف: ۱۵۷) ’’جو اس امی نبی رسول کی پیروی کرتے ہیں جس کو وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ، جو انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے اور ان کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کرتا ہے اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان سے ان کا بوجھ اور وہ طوق اتارتا ہے جو ان پر تھے تو جو اس پر ایمان لائے، اس کو تقویت دی اور اس کی مدد کی اور اس نور کی پیروی کی جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں ۔‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو صفات بیان فرمائی ہیں وہ سب تشریعی صفات ہیں جو تلاوت کتاب، تبلیغ کتاب اور تبیین و تفسیر کتاب کے علاوہ ہیں ، کیونکہ یہ آپ کی ذاتی صفات ہیں ۔ اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوامر و نواہی اور آپ کے تشریعی احکام اپنے مقام، حیثیت اور درجے میں اللہ کے اوامر و نواہی اور احکام کی طرح ہیں ، اور خود اللہ تعالیٰ نے دونوں کو یہ مساوی درجہ دیا ہے۔ غامدی کی یاوہ گوئیاں : جاوید احمد غامدی ہیں تو مولانا اصلاحی کے پروردہ، مگر ان کی تحریروں میں قرآن و حدیث کے تدبر و فہم، تفسیر و تفہیم کے اصولوں کے بیان، قرآن و حدیث کے باہمی تعلق کے تعین اور دونوں کے مقام و حیثیت کے فرق کے حوالہ سے زیادہ جرأت پائی جاتی ہے اصلاحی صاحب کی تحریروں میں جو تحفظات تھے وہ ان کی تحریروں میں مفقود ہیں ، بلکہ ان کی جرأتوں نے یا وہ گوئیوں کی صورت اختیار کر لی ہے۔ نیز وہ خلط مبحث میں بھی بڑے جری اور ماہر ہیں ۔ غامدی صاحب قرآن سے تعلق کے حوالے سے جس تناظر میں سابقہ آسمانی صحیفوں کو دیکھتے اور لیتے ہیں اسی تناظر میں وہ حدیث کو بھی لیتے ہیں ، حالانکہ قدیم آسمانی صحیفے ضائع ہو چکے ہیں اور ان میں نازل شدہ شریعت بھی منسوخ ہو چکی ہے اور سابق انبیاء اور رسولوں کے اللہ کے نبی اور رسول ہونے پر ایمان تو فرض ہے، لیکن وہ ہمارے متبوع نہیں رہے ہمارے متبوع صرف محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ اسی طرح سابق رسولوں کی شریعتوں پر عمل کرنا بھی ہمارے لیے جائز نہیں رہا، حتی کہ ان شریعتوں کے جو احکام محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے احکام کے مطابق ہیں ان پر بھی ہم اس وجہ سے عمل کرتے ہیں کہ یہ ہماری شریعت کے احکام ہیں ، نہ کہ ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام پر نازل ہونے والی شریعتوں کے احکام۔ رہا سابق رسولوں کے درمیان عدم تفریق کا حکم تو اس کا تعلق ان کے صدق رسالت سے ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے