کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 305
بن اسحاق ’’مدلس‘‘ ہونے کی وجہ سے جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں اور ان کی ’’معنعن‘‘ روایت ناقابل استدلال ہے، البتہ جس حدیث کی روایت میں انہوں نے سماع کی تصریح کی ہے وہ ’’حسن درجہ‘‘ پر ہے۔ جن کتابوں میں ’’تین دن کے فقرہ‘‘ کے ساتھ یہ حدیث آئی ہے وہ مستدرک حاکم (نمبر ۲۲۴۸) بیہقی کی معرفۃ السنن (۳۲۲۶) اور السنن الکبری (۱۰۴۵۸) اور سنن ابن ماجہ (۲۳۵۵) وغیرہ ہیں اور ان تمام کتابوں میں ’’اضافے والی‘‘ روایت: کی تمام سندوں میں محمد بن اسحاق شامل ہیں جنہوں نے بذریعہ ’’عن‘‘ نافع سے اس کی روایت کی ہے۔ لیکن بخاری (نمبر ۲۱۱۷، ۲۴۰۲، ۲۴۱۴، ۴۹۶۴) مسلم (نمبر ۱۵۳۳) ابو داود (نمبر ۳۵۰۱) ترمذی (نمبر ۱۲۵۰) نسائی (۴۴۸۹) اور مسند امام احمد (نمبر ۵۰۳۶-۵۲۷۱، ۵۵۶۱، ۵۵۱۵، ۵۸۵۴، ۵۹۷۰) میں یہ حدیث عبداللہ بن عمر اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے مروی آئی ہے جس میں ’’ثلاثۃ ایام‘‘ کا اضافہ نہیں ہے۔ حافظ زیلعی نے بھی ’’نصب الرایہ تخریج احادیث الہدایہ‘‘ میں (ص ۱۴-۱۶ ج ۴) ان تمام حدیثوں کو ضعیف قرار دیا ہے، جن میں ثلاثۃ أیام‘‘ کا فقرہ آیا ہے اور جن کی سند دن میں محمد بن اسحاق شامل ہیں ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ صحیح احادیث کی مخالفت اور ان سے عدم استدلال اور ضعیف حدیثوں سے استدلال احناف کی پہچان بن گیا ہے۔ حدیث واحد سے قرآن پر اضافہ: یہ اس باب کا نہایت اہم اور معرکۃ الآراء موضوع ہے متاخرین علمائے احناف، متکلمین کے دونوں اسکولوں -اشعری، اور ماتریدی- منکرین حدیث اور حدیث کو مشروط ماخذ شریعت ماننے والے تمام لوگوں کا یہ محبوب موضوع ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کتاب اللہ کے ساتھ اپنے تعلق خاطر کے بڑے دعوے کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے کلام سے محبت و عقیدت کا اظہار ان کی خاص شناخت ہے یوں تو یہ لوگ حدیث واحد سے قرآن کی تفسیر اور تبیین کے بھی خلاف ہیں ، لیکن اس کا اظہار یہ برملا اور علی الاعلان نہیں کرتے، بلکہ ان حدیثوں کی صحت کا انکار کر کے کرتے ہیں جو قرآن پاک کی تفسیر و تبیین سے متعلق ہیں ۔ رہا حدیث سے قرآن پر اضافے کا مسئلہ تو اس کے ذکر سے ان کے ایوان ہائے امن و سکون میں زلزلہ آ جاتا ہے۔ حدیث میں ایسے لوگوں کو ’’مسند نشین‘‘ فرمایا گیا ہے۔[1] جب سے اس گروہ کا ظہور ہوا ہے اس وقت سے آج تک اس کا ایک فرد بھی اپنے دعوے پر قرآن سے کوئی دلیل نہیں پیش کر سکا ہے، جو اس امر کی دلیل ہے کہ اس کے پاس دعویٰ اور بڑ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ حدیث رسول کے ایک ادنیٰ خادم کی حیثیت سے میرا یہ عقیدہ ہے کہ محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اور ہادی ماننے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آپ کو قرآن کا شارح، مفسر، معلم اور مُبَیّن ماننے کے ساتھ ساتھ آپ کو مستقل بالذات شارع
[1] ابو داود ۴۶۰۴، ۴۶۰۵، ترمذی ۲۶۶۳، ۲۶۶۴، ابن ماجہ ۱۲، ۱۳۔