کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 304
کرنے کا اختیار کسی کو نہیں رہ جاتا۔ اس مسئلہ سے متعلق حدیث کی کتابوں میں جو صحیح احادیث منقول ہیں ان میں سے کسی بھی حدیث میں سودے کو نافذ کرنے یا کالعدم کرنے کی کوئی مدت نہیں بیان ہوئی ہے، سوائے ان کے ایک دوسرے سے الگ اور جدا ہو جانے کی مدت کے۔ شرط عائد کرنے کا اختیار: لیکن احناف کا مسلک یہ ہے کہ ’’خیار المجلس‘‘ کے علاوہ بیچنے والے اور خریدنے والے، ہر ایک کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ بیع کے نفاذ یا عدم نفاذ کے لیے تین دن کی مہلت سے فائدہ اٹھائیں اس سے زیادہ نہیں ۔ شرط عائد کرنے کے اس اختیار کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگر کسی نے کسی سے کسی جگہ کوئی چیز خریدی قیمت بھی ادا کر دی گئی خریدار نے خریدی ہوئی چیز کو اپنے قبضے میں بھی لے لیا مگر شرط کے اس اختیار کی وجہ سے تین دن تک وہ اس کو استعمال میں نہیں لا سکتا، کیونکہ جہاں بیچنے والے کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ تین دن کے اندر اندر اپنی بیچی ہوئی چیز کو واپس لے لے وہیں خریدنے والے کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ خریدی ہوئی چیز کو لینے سے انکار کر دے۔ شرط عائد کرنے کے اس اختیار کی ایک دلیل تو یہ لوگ حدیث ’’مصراۃ‘‘ کو دیتے ہیں جیسا کہ امام ابن القیم کے حوالہ سے اوپر ذکر آ چکا ہے، جبکہ اس حدیث میں ’’تین دن کی مہلت‘‘ کا کوئی ذکر نہیں ہے اور بیع نسخ کرنے کے لیے تین دن کی مہلت کی دلیل میں یہ لوگ حبان بن منقذ رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث کو پیش کرتے ہیں جو ضعیف ہونے کے علاوہ تمام صحیح حدیثوں کے خلاف بھی ہے۔ صاحب ہدایہ علامہ برہان الدین مرغنیانی نے یہی حدیث بطور مثال نقل کی ہے، وہ کتاب البیوع ’’باب خیار الشرط‘‘ کے تحت تحریر فرماتے ہیں : ((خیار الشرط جائز فی البیع للبائع و المشتری و لہما الخیار ثلاثۃ أیام فما دونہا، و الأصل فیہ ما روی: أن حبان بن منقذ بن عمرو الأنصاری رضی اللہ عنہ کان یغبن فی البیاعات، فقال لہ النبی صلي اللّٰه عليه وسلم : إذا بایعت فقل لا خلابۃ و لی الخیار ثلاثۃ أیام)) ’’بیع و شراء میں بیچنے والے اور خریدنے والے کے لیے شرط لگانے کا اختیار جائز ہے اور ان دونوں کو تین دن اور اس سے کم مدت کے لیے یہ اختیار حاصل ہے، اس حکم کی اصل یہ روایت ہے کہ حبان بن منقذ بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ خرید و فروخت کے معاملات میں دھوکا دہی سے دو چار ہوا کرتے تھے اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: جب تم خرید و فروخت کا معاملہ کرو، تو کہہ دیا کرو: دھوکا نہیں اور مجھے تین دن کا اختیار حاصل ہے۔[1] اس حدیث کی صرف اس روایت میں ’’تین دن کے اختیار‘‘ کا فقرہ آیا ہے جو محمد بن اسحاق سے مروی ہے اور محمد
[1] ص ۱۳-۱۵ ج ۴