کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 303
ایک دوسرے کو اختیار دے اور اسی بنیاد پر معاملہ ہو‘‘ یہ بیع و شراء کی دوسری صورت ہے، یعنی اختیار سے مقید اور مشروط بیع اس کی شکل یہ ہے کہ دونوں میں سے کوئی اپنے ساتھی کو بیع کے نفاذ کا اختیار دے دے اور وہ اسے اسی وقت قبول کر لے تو اسی وقت وہ بیع واجب التنفیذ ہو جائے گی اور دونوں کے ایک دوسرے سے الگ اور جدا ہونے تک ان کا یہ اختیار ممتد نہیں ہو گا۔ حدیث میں ’’فقد وجب البیع‘‘ کا دوسرا فقرہ حدیث کے پہلے حصہ سے متعلق ہے جس میں بیع و شراء کی عام صورت بیان ہوئی ہے یعنی اگر دو آدمیوں نے آپس میں بیع و شراء کا معاملہ کیا اور جس مجلس میں یا جگہ انہوں نے یہ معاملہ کیا اور اس جگہ کو چھوڑنے سے پہلے تک ان میں سے کسی نے اس بیع کو کالعدم یا منسوخ نہیں کیا تو وہ واجب التنفیذ ہو گی اور اس جگہ سے چلے جانے کے بعد ان میں سے کسی کو اسے کالعدم کرنے کا اختیار نہیں رہ جائے گا۔[1] خرید و فروخت کے معاملے میں شرط لگانے کا اختیار: خرید و فروخت اور زندگی سے متعلق ضروری اشیاء کے تبادلے کا معاملہ ایسا ہے جس سے کسی بھی ملک اور کسی بھی معاشرے کا انسان نہ کبھی بے نیاز ہوا ہے اور نہ کبھی ہو گا اس تناظر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بھی سامان حیات کے لین دین اور خرید و فروخت سے ہر مسلمان دو چار ہوتا تھا اور چونکہ لین دین اور تجارتی اعمال میں دھوکے اور فریب کے بڑے امکانات اور مواقع آتے ہیں اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اقوال و افعال کے ذریعہ جہاں اس معاملہ کی جائز شرعی صورتیں واضح فرما دی ہیں وہیں لین دین اور خرید و فروخت کے ایسے طریقے بتا دیے ہیں جن پر عمل کر کے فریقین نقصان اٹھانے اور نقصان پہنچانے، دونوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔ موضوع کے اندر رہتے ہوئے سطور بالا میں معاملات بیع و شراء اور ان سے متعلق جن احادیث کا ذکر آیا ہے ان سے بیع و شراء کی دو صورتیں سامنے آئی ہیں۔ ۱۔ بیچنے والے اور خریدنے والے جس جگہ یہ معاملہ کریں وہ یہ معاملہ کرتے ہی اس کو نافذ العمل قرار دے دیں ۔ جس کے نتیجے میں فریقین میں سے کسی کو سودا کالعدم کرنے یا منسوخ کرنے کا کوئی اختیار نہیں رہ جاتا اور وہ واجب التنفیذ ہو جاتا ہے۔ حدیث میں اس کو ’’بیع الخیار‘‘ اختیاری خرید و فروخت کا نام دیا گیا ہے۔ ۲۔ عام معاملاتِ بیع و شراء: ان میں فریقین میں سے کوئی اپنے ساتھی کو بیع نافذ کرنے یا کالعدم کرنے کا اختیار نہیں دیتا اور دونوں میں سودا طے پا جاتا ہے۔ اس طرح کی خرید و فروخت اور لین دین کا معاملہ اس وقت تک واجب التنفیذ یا نافذ العمل نہیں ہوتا جب تک فریقین اس جگہ رہیں جہاں انہوں نے سودا کیا ہے، اگر ان میں سے کوئی ایک بھی وہاں سے چلا گیا یا دونوں ایک دوسرے سے الگ اور جدا ہو گئے، تو سودا واجب التنفیذ ہو جاتا ہے اور اس کو منسوخ
[1] فتح الباری ص ۱۱۴۶ ج ۲، منۃ المنعم ص ۱۶ ج ۳۔