کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 302
’’بیع و شراء کا معاملہ کرنے والے دونوں میں سے ہر ایک کو اپنے ساتھی پر -معاملہ کو قبول کر لینے یا رد کر دینے کا- اختیار اس وقت تک حاصل ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہو، سوائے اختیار سے مشروط خرید و فروخت کے۔‘‘[1] حدیث کی تشریح: عام معاملات بیع و شراء میں بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں میں سے ہر ایک کو سودا طے کر لینے یا رد کر دینے کا حق اس وقت تک حاصل ہے جب تک وہ موقع خرید و فروخت پر اکٹھے رہیں اور جوں ہی وہ ایک دوسرے سے الگ اور جدا ہوئے اسی لمحہ یہ حق اور اختیار بھی ختم ہو جائے گا۔ اس حکم سے خرید و فروخت کا وہ معاملہ خارج ہے جو اختیار سے مقید اور مشروط ہو، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر سامان فروخت کرنے والے اور اس کے خریدار نے بیع و شراء کا سودا کرتے ہی اس کے نفاذ کا حق اختیار کر لیا تو یہ سودا اسی وقت واجب التنفیذ ہو جائے گا اور دونوں کے ایک دوسرے سے الگ اور جدا ہونے کی مدت کا کوئی اعتبار نہیں رہ جائے گا۔ حدیث میں ’’إلا بیع الخیار‘‘ خرید و فروخت کے سودے کے نفاذ یا عدم نفاذ کے، دونوں کی جدائی اور علیحدگی تک ممتد ہونے سے استثنا ہے بایں معنی کہ اگر دونوں نے علیحدہ اور جدا ہونے سے پہلے ہی سودے کے نفاذ کو اختیار کر لیا تو بیع و شرا کا سودا طے پا جائے گا اور ان کی علیحدگی کی مدت غیر معتبر ہو جائے گی۔ مذکورہ حدیث کی تشریح سے متعلق اوپر جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس کی تائید صحیحین کی ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے جس کے الفاظ ہیں : ((إذا تبایع الرجلان، فکل واحد منہما بالخیار ما لم یتفرقا و کانا جمیعًا، أو یَخیر أحدہما الاخر، فتبایعا علی ذلک فقد وجب البیع، و ان تفرقا بعد أن یتبایعا و لم یترک واحدٌ منہما البیع، فقد وجب البیع)) ’’اگر دو آدمیوں نے خرید و فروخت کا معاملہ کیا تو ان میں سے ہر ایک کو اس وقت تک اس کے نفاذ اور عدم نفاذ کا حق و اختیار حاصل ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جائیں اور اکٹھے رہیں ، یا ان میں سے ایک دوسرے کو اختیار دے اور اس بنیاد پر وہ خرید و فروخت کا معاملہ کریں ، تو بیع واجب ہو جائے گی اور اگر وہ خرید و فروخت کے بعد جدا ہوئے اور ان میں سے کسی نے بیع کو کالعدم نہیں کیا تو بھی بیع واجب ہو جائے گی۔‘‘[2] حدیث کا مطلب: اس حدیث میں ’’و کانا جمیعًا‘‘ تک عام معاملات خرید و فروخت کی صورت بیان ہوئی ہے اور ’’یا ان میں سے
[1] بخاری ۲۱۱۱، مسلم ۱۵۳۱ [2] (بخاری ۲۱۱۲ مسلم ۱۵۳۱-۴۴-)