کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 301
صاع کھجور بھی لوٹائے۔‘‘[1] ’’شاۃ محفلۃ‘‘ ’’شاۃ مصراۃ‘‘ کی ہم معنی ہے اور تحفیل کے معنی تصریہ ہی کی طرح بکری، گائے اور اونٹنی کو دوہے بغیر چھوڑے رکھنا ہے، تاکہ اس کے تھن میں دودھ زیادہ جمع ہو جائے اور وہ بڑا ہو جائے۔ یہ صحیح ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ’’بن دوہی‘‘ بکری کی بیع فسخ کرنے کا جو حکم بیان کیا ہے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہیں کیا ہے، مگر یہ مبنی حدیث پر ہی ہے۔ کیونکہ صحابہ کے فتاویٰ کے تتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شرعی فتوے اپنی رائے سے نہیں دیتے تھے، بلکہ قرآن و حدیث سے دیتے تھے۔ لگتا ہے کہ احناف کو ابن مسعود کی یہ روایت نہیں معلوم تھی، ورنہ اس مسئلہ میں ان کی رائے اور ہوتی، کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ حنفی مسلک عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایات اور اقوال پر مبنی ہے۔ ایک لطیفہ: اوپر کی بحث سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ احناف ’’حدیث مصراۃ‘‘ کو رد کر چکے ہیں اور عیسیٰ بن ابان اور کرخی کے درمیان جو اختلاف ہے وہ غیر فقیہ راوی کی حدیث کے قبول اور رد سے متعلق ہے اور جو روایت مقبول نہ ہو مردود ہو وہ کسی مسئلہ میں شرعی دلیل نہیں بن سکتی، یہ سب واضح ہو جانے کے بعد قارئین کے لیے یہ بات ایک لطیفہ سے کم نہیں ہو گی کہ احناف نے مشروط خرید و فروخت -بیع الخیار- کے لیے زیادہ سے زیادہ تین دن کی مدت مقرر کرنے پر اسی حدیث ’’مصراۃ‘‘ سے استدلال کیا ہے، جبکہ اس حدیث میں اس کا کوئی ذکر نہیں آیا ہے، چنانچہ امام ابن القیم رحمہ اللہ اعلام الموقعین میں تحریر فرماتے ہیں : ’’انہوں نے معاملات بیع و شراء کو نافذ کرنے یا کالعدم کر دینے کے اختیار کے لیے زیادہ سے زیادہ تین دنوں کی مدت مقرر کرنے پر اسی حدیث ’’مصراۃ‘‘ سے استدلال کیا ہے جو ان کے عجائبات میں سے ایک ہے، جبکہ یہ اس حدیث کے سب سے بڑے منکر ہیں اور اس کو ماننے کے روادار نہیں ہیں ، اگر یہ حدیث حق و ثابت ہے تو اس پر عمل کرنا فرض ہے اور اگر صحیح نہیں ہے، تو پھر اختیار سے مشروط معاملات بیع و شراء کے لیے تین دن کی مدت مقرر کرنے پر اس سے استدلال بھی درست نہیں ہے اور حدیث میں اختیار کی شرط کا کوئی ذکر بھی نہیں آیا ہے، اس طرح حدیث کا جو مدعا ہے اور جس پر وہ دلالت کرتی ہے انہوں نے اس کی تو مخالفت کر دی ہے اور جو اس کا مدلول ہی نہیں ہے اس کو دلیل بنا لیا۔‘‘[2] اختیار سے مشروط بیع و شراء: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((المتبایعان: کل واحد منہما بالخیار علی صاحبہ ما لم یتفرقا، إلا بیع الخیار))
[1] بخاری نمبر ۲۱۴۹ [2] ص ۴۹۷ ج ۳