کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 300
حدیث کی شرح: حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اونٹنی یا بکری کو بیچنے سے پہلے اس کا دودھ نہ دوہے، جس کی وجہ سے اس کا تھن دودھ سے بھر جائے گااور بڑا دکھائی دے گا اور خریدار اس دھوکے میں اس کو خرید لے کہ اس کا تھن قدرتی طور پر ایسا ہی ہے اور قیمت توقع سے زیادہ ادا کر دے، اور جب اس کا دودھ دوہے تو اسے اس حقیقت کا پتا چلے کہ یہ قدرتی طور پر زیادہ دودھ دینے والی نہیں ہے۔ تو خریدار کو یہ اختیار ہے کہ چاہے اس اونٹنی یا بکری کو یہ انکشاف ہونے کے بعد بھی اپنے پاس باقی رکھے یا اسے بائع کو ایک صاع کھجور یا کسی اور غلہ کے ساتھ لوٹا دے ایسی اونٹنی یا بکری کو ’’مصراۃ‘‘ کہتے ہیں جو أصرّی یُصَرِّی تصریۃ بروزن زکیّ یزکی تزکیۃ کا اسم مفعول ہے۔ یعنی ایسی اونٹنی یا بکری جس کا تھن بن دوہا ہوا چھوڑ دیا جائے۔ احناف کا دعویٰ: احناف نے یہ دعوی کر کے کہ یہ حدیث قیاس کے خلاف بھی ہے اور غیر فقیہ راوی -ابوہریرہ رضی اللہ عنہ - کی رویات کردہ ہے اس کو ماننے سے انکار کر دیا۔ شاہ ولی اللہ نے ان کے اس نقطۂ نظر پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ تتبع کرنے والے پر اس طرح کے تضادات کی حقیقت مخفی نہیں ہو سکتی۔ مثلاً یہی قول کہ جو راوی عدالت اور ضبط سے تو موصوف ہو، مگر فقیہ نہ ہو اس کی حدیث اگر قیاس کے خلاف ہو گی تو رد کر دی جائے گی قبول نہ کی جائے گی جیسا کہ انہوں نے ’’حدیث مصراۃ‘‘ کے ساتھ کیا، لیکن پھر ان میں اختلاف پیدا ہو گیا اور اس کو عیسی بن ابان کا مسلمہ اُصول کہہ کر کچھ لوگوں نے تو تسلیم کر لیا اور کچھ لوگوں نے ’’راوی کے فقیہ ‘‘ ہونے کی شرط کو ماننے سے انکار کر دیا یہ مسلک کرخی اور ان کے پیرؤوں کا ہے جن کا کہنا ہے کہ خبر واحد قیاس پر مقدم ہے اس دوسرے فریق کا کہنا ہے کہ ہمارے ائمہ سے یہ منقول نہیں ہے کہ راوی غیر فقیہ کی حدیث قیاس کے خلاف ہونے کی صورت میں مسترد کر دی جائے گی، چنانچہ بھول کر کھانے پینے سے روزہ ٹوٹنے کی اس حدیث کو مانا ہے جو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جبکہ وہ ان کے نزدیک ’’فقیہ‘‘ نہیں تھے، یہاں تک کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر یہ حدیث نہ ہوتی تو میں قیاس کو اختیار کرتا۔[1] عبداللہ بن مسعود کی حدیث: صحیح بخاری میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک موقوف حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا حدیث ’’مصراۃ‘‘ کی ہم معنی آئی ہے۔ الفاظ مختلف ہیں : ((من اشتری شاۃ محلفۃ فردہا، فلیرد معہا صاعًا من تَمَرٍ…)) ’’جو بن دوہی ہوئی بکری خریدے جس کا دودھ تھن میں جمع ہو گیا ہو، پھر اس کو لوٹا دے تو اس کے ساتھ ایک
[1] الانصاف ص ۱۴۰-۱۴۱