کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 30
امام شافعی رحمہ اللہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’یہ حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ علم اور فقہ کا روای غیر فقیہہ بھی ہو سکتا ہے جس کا حافظ ہونا تو اس کے لیے ضروری ہے، لیکن اس کا عالم اور فقیہہ ہونا اس کے لیے ضروری نہیں ہے۔‘‘ [1]
اس حدیث میں جو چیز زیادہ قابل توجہ ہے وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخصوص طور پر اس شخص کو دعا دی ہے یا اس شخص کے لیے اللہ سے دعا کی ہے جو آپ کا ارشاد مبارک سنے، اس کو یاد رکھے اور دوسروں تک اسے پہنچائے، اس دعا میں آپ نے اس فقیہہ کو شامل نہیں فرمایا ہے جس کو حدیث ملے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ حدیث کے راوی ہی اس کی حفاظت کرنے والے اور دنیا میں اسے عام کرنے والے رہے ہیں ۔ رہے فقہاء اور شارحین حدیث تو ان کا شمار خدام حدیث میں نہیں ہوتا اس لیے ان کا درجہ حدیث کے مطابق ثانوی ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حدیث کا راوی فقیہہ اور عالم بھی ہو سکتا ہے اور نہیں بھی ہو سکتا مگر اس کا فقیہہ ہونا یا نہ ہونا حدیث کی صحت وعدم صحت پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے، بلکہ ہوتا ہے کہ ایک غیر فقیہہ راوی عدالت اور ضبط کی صفت میں اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کے باعث اس صفت میں اپنے سے فروتر، مگر علم وفقہ میں اپنے سے برتر راوی سے زیادہ ثقہ اور قابل اعتماد ہو۔ بلکہ اگر میں یہ دعویٰ کروں کہ روایت حدیث میں تفقہ سے موصوف ہونا کسی بھی درجے میں مطلوب نہیں ہے تو میرا یہ دعویٰ مبنی برحقیقت ہوگا جس کی تائید نبی کریم فداہ ابی وامی صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا ارشاد سے بھی ہوتی ہے جس میں آپ نے اپنی دعا کا مستحق اس خوش نصیب کو قرار دیا ہے جو آپ کی حدیث سن کر اسے اپنے دل میں بے کم وکاست سمولے، اور اسے اپنے سینے میں محفوظ کرے، پھر اسے دوسروں تک پہنچا دے۔ اگر راوی کے لیے فقہ کی کسی درجہ میں بھی ضرورت ہوتی تو آپ نے اسے بیان کر دیا ہوتا!!
یاد رہے کہ حدیث یا علوم الحدیث کی کتابوں میں ، فقہ یا علم کے الفاظ سے روایتی یا اصطلاحی ’’فقہ‘‘ کو نہیں ، بلکہ حدیث کو مراد لیا گیا ہے۔
نتیجہ بحث:
اوپر سورۂ حجرات کی آیت مبارکہ اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کی روشنی میں جو کچھ عرض کیا گیاہے اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اللہ ورسول کے نزدیک راویوں کی تعداد میں کثرت اور ان کا تفقہ مطلوب نہیں ہے۔ خود صحابہ کرام اور تابعین میں بھی ان دونوں میں سے کوئی بھی چیز موضوع بحث نہیں تھی سب سے پہلے معتزلہ نے خبر واحد اور خبر متواتر کی بحث چھیڑی اور یہ نعرہ لگایا کہ عقائد کے بارے میں خبر واحد نا قابل اعتبار ہے اس طرح تمام عقائد کا انکار کر دیا، پھر انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اشعری اور ما تریدی متکلمین نے بھی عقائد کے باب میں خبر واحد سے استدلال کو غیر معتبر قرار
[1] الرسالہ ص: ۲۶۸