کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 299
کہا: میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ’’متعہ‘‘ -عمرہ- کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے مجھے اس کا حکم دیا اور ان سے ہدی کے بارے میں پوچھا تو فرمایا: اس میں اونٹ یا گائے، یا بکری یا خون میں شراکت داخل ہے…۔[1] ’’شرعی ہدی‘‘ شریعت میں قربانی کے لیے جو جانور معتبر قرار دیا گیا ہے وہ بھیڑ اور دنبے کے علاوہ وہ جانور ہے جس کے سامنے کے دانت گر گئے ہوں جس کو ’’ثني‘‘ کہا جاتا ہے اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے۔ ((لا تذبحوا الا مسنۃ الا ان یعسر علیکم فتذبحوا جذعۃ من الضأن)) تم لوگ ایسے جانور -اونٹ یا گائے یا بکری کے قسم سے- کی قربانی کرو جو سن رسیدہ -جس کے سامنے کے دانت گر چکے ہوں - ہو سوائے اس کے کہ تم کو ایسا جانور حاصل کرنا دشوار ہو تو ایک سال کی عمر سے کم بھیڑ کے بچے کو قربان کرو۔‘‘[2] حاصل کلام: احناف نے جس اصول پر عمل کرتے ہوئے ’’لا صلاۃ الا بفاتحۃ الکتاب‘‘ کو آیت ’’فاقرء وا ما تیسر من القرآن‘‘ کے عموم کا مخصص نہ مان کر نماز میں قراء ت فاتحہ کی فرضیت کا انکار کر دیا تھا، اس کو ’’ہدی‘‘ سے متعلق حدیث سے ’’فما استیسر من الہدی‘‘ کے عموم کی تخصیص کر کے توڑ دیا اور یہ شرعی حکم صادر کر دیا کہ ہدی کے لیے بکرا یا بکری سے بڑا کوئی جانور ہونا چاہیے۔ تیسرا اصول:…متأخرین احناف کا تیسرا اصول یہ ہے کہ رائے اور قیاس سے متعارض کسی غیر فقیہ راوی کی روایت کردہ حدیث قابل عمل نہیں ہے۔ حدیث مصراۃ: حدیث مصراۃ وہ حدیث ہے جس کے قبول و رد میں احناف نے بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں اور کہیں اس کا انکار کر کے اور کہیں اس سے استدلال کر کے اپنے متضاد نقطہ ہائے نظر کا ثبوت دیا ہے یہ حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس کے الفاظ ہیں : ((لا تُصَرُّوْا الإبل و لاغنم، فمن ابتاعہا بعد، فإنہ بخیر النظرین بعد أن یحتلبہا: إن شائَ أمسک و إن شاء ردہا و صاعَ تَمَرٍ)) ’’اونٹنی اور بکری کے تھنوں میں دودھ جمع مت کرو، تو جس نے اس کو ایسا کرلیے جانے کے بعد خریدا اس کو اسے دوھنے کے بعد دو باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے؛ چاہے تو اس کو اپنے پاس باقی رکھے اور چاہے تو ایک صاع کھجور کے ساتھ اس کو لوٹا دے۔‘‘[3]
[1] بخاری ۱۶۸۸ [2] مسلم ۱۹۶۳، علامہ عثیمین رحمہ اللہ ، تفسیر سورۂ بقرہ ص ۳۹۲ ج ۲، آیت ۱۹۶ [3] بخار ی: ۲۱۴۸