کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 298
دوسرا اصول، عام بھی خاص کی طرح قطعی ہے: اس من گھڑت اصول کا مطلب یہ ہے کہ قرآن میں جو احکام عام ہیں وہ اس کے خاص کی طرح قطعی ہیں ، ان کے عموم کو حدیث کے ذریعہ محدود نہیں کیا جا سکتا، اس تناظر میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد ’’فاقرء وا ما تیسر من القرآن‘‘ ’’قرآن سے جو آسان ہو وہ پڑھو‘‘ (المزمل: ۲۰) سے استدلال کرتے ہوئے نماز میں قرآن کے کسی بھی حصے کے پڑھ لینے کو فرض قرار دیا ہے اور حدیث: ’’لا صلاۃ الا بفاتحۃ الکتاب‘‘ فاتحۃ الکتاب کے بغیر کوئی نماز نہیں ہوتی کو آیت کا ’’مخصص‘‘ نہیں مانا ہے اس طرح نماز میں سورۂ فاتحہ کی قراء ت کی فرضیت کا انکار کر دیا ہے۔ لیکن جب ان پر یہ اعتراض کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ’’فما استیسر من الہدی‘‘ ’’تو قربانی کے جانوروں میں سے جو میسر ہو۔‘‘ (البقرۃ: ۱۹۶) بھی ’’ما تیسر من القرآن‘‘ کی طرح عام ہے لہٰذا جو چھوٹی بڑی ہدی میسر آجائے اس کی قربانی کرنی چاہیے، لیکن انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کہ ’’وہ بکری اور اس سے بڑا جانور ہے‘‘ کو آیت کا مخصص اور بیان مان کر ہدی کے لیے بکرا یا بکری سے بڑا کوئی جانور مقرر کر دیا۔ ہدایہ میں ہے: ((الہدی ادناہ شاۃ لما روی انہ علیہ الصلاۃ و السلام سئل عن الہدی فقال: ادناہ شاۃ، قال: و ہو من ثلاثۃ انواع الابل، و البقر و الغنم، لأنہ علیہ الصلوۃ و السلام لما جعل الشاۃ ادنی، فلا بد ان یکون لہ اعلی و ہو البقر و الجزور)) روایت کے مطابق چھوٹی ترین ’’ہدی‘‘ بکری ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’ہدی‘‘ کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: چھوٹی ترین ہدی بکری ہے، جس کی تین قسمیں ہیں : اونٹ، گائے، بھیڑ، بکری اور جب نبی علیہ السلام نے سب سے چھوٹی ’’ہدی‘‘ بکری قرار دے دی ہے تو ضروری ٹھہرا کہ بڑی ہدی گائے اور اونٹ ہو۔‘‘[1] حافظ زیلعی ’’نصب الرایہ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں : روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’ہدی‘‘ کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا: سب سے چھوٹی ہدی بکری ہے۔ میں کہتا ہوں : ’’یہ باطل ہے، یہ مجھے صرف عطاء کے قول کے طور پر ملی ہے اور اس کی روایت بیہقی نے شافعی کے طریق سے کی ہے: ہمیں مسلم بن خالد زنجی نے ابن جریج سے روایت کرتے ہوئے خبر دی ہے کہ عطاء نے کہا: ’’ادنی ما یہراق من الدماء فی الحج وغیرہ شاۃ‘‘ حج اور غیر حج میں چھوٹے ترین جس جانور کا خون بہایا جائے وہ بکری ہے۔‘‘[2] اس کے بعد حافظ زیلعی نے لکھا ہے: ہمارے شیخ علاء الدین مغلطائی بکجری- نے ہدی کے لیے دوسرے کی تقلید کرتے ہوئے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جو بخاری نے ابو جمرہ نصر بن عمران ضبعی سے روایت کی ہے، انہوں نے
[1] ص ۲۰۰-۲۰۱ ج ۳ [2] ص ۲۰۰ ج ۳