کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 297
اور یہ خاص الفاظ غیر شادی شدہ زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد کا مفہوم نہیں دیتے اس کا پتا اس حدیث سے چلتا ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر شادی شدہ زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد اور شادی شدہ زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد کی حد بیان فرمائی ہے، جس کے الفاظ ہیں : ((خذوا عنی قد جعل لہن سبیلا: البکر بالبکر جلد مائۃ و نَفیُ سنۃ و الثیب بالثیب جلد مائۃ و الرجم)) ’’مجھ سے لے لو، مجھ سے لے لو، اللہ نے ان کے لیے راہ نکال دی ہے، غیر شادی شدہ عورت سے غیرشادی شدہ مرد کے زنا کرنے کی حد سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے اور شادی شدہ عورت سے شادی شدہ مرد کے زنا کرنے کی حد سو کوڑے اور سنگ ساری ہے۔‘‘[1] نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’قد جعل اللّٰہ لہن سبیلا‘‘ سے مراد وہ وعدہ لیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے سورۂ نساء کی آیت نمبر ۱۵ میں کیا ہے: ’’او یجعل اللہ لہن سبیلا‘‘ یا اللہ ان کے لیے کوئی راہ پیدا کر دے، اور یہ راہ سورۂ نور کی آیت نمبر ۲ میں بیان کردہ ’’حد‘‘ ہے۔ تیسری آیت: تیسری جس آیت میں احناف نے اپنا یہ اصول کہ ’’خاص اپنے حکم میں واضح ہے اس کے ساتھ کوئی توضیحی بیان نہیں جوڑا جا سکتا‘‘ توڑا ہے وہ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر ۳۸ کا فقرہ: ’’و السارق و السارقۃ فاقطعوا ایدیہما‘‘ ہے۔ اس فقرے میں ’’السارق و السارقۃ‘‘ خاص الفاظ ہیں اور ان کا مفہوم بالکل واضح ہے، یعنی ہر طرح کے مال اور ہر مقدار کی چوری کرنے والا اور والی اس میں داخل ہے۔ لیکن احناف نے اپنا بنایا ہوا یہ اصول اس حدیث سے توڑ دیا جس میں آیا ہے کہ دس درہم سے کم کی چوری کی حد ’’قطع ید‘‘ نہیں ہے اور اس سے زیادہ عجیب اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ یہ حدیث حد درجہ ضعیف اور ناقابل استدلال ہے اور جتنی سندوں سے بھی مروی ہے ان میں سے کوئی سند بھی صحیح نہیں ہے۔ اس کے الفاظ ہیں : ’’لا قطع فی اقل من عشرۃ دراہم‘‘ ’’دس درہم سے کم میں ہاتھ نہ کاٹا جائے۔‘‘ یہ حدیث عمرو بن شعیب، عن ابیہ، عن جدہ عبداللہ بن عمرو- عبداللہ بن مسعود اور ام ایمن رضی اللہ عنہم کی نسبت سے مسند احمد (۶۹۰) ابن حبان کی کتاب المجروحین (ص ۲۷۳ ج ۱، ترجمہ ۲۰۷) میں ، طبرانی کی المعجم الاوسط (نمبر ۷۱۴۲) میں ، مسند ابی حنیفہ (ص ۲۱۴-۲۱۵) میں ، طبرانی کی المعجم الکبیر (نمبر ۹۷۴۲-۹۷۸۳) میں مروی ہے اور کسی بھی سند سے صحیح نہیں ہے۔
[1] مسلم ۱۶۹۰