کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 296
ہے وہ اپنے حکم میں ’’ارکعوا و اسجدو‘‘ سے ذرہ برابر بھی مختلف نہیں ہیں ذیل میں یہ آیتیں اور ان کے توضیحی بیان سے متعلق وہ احادیث ایک ایک کر کے درج کر رہا ہوں جن کو قابل اعتبار مان کر احناف نے اپنا اصول توڑا ہے۔
پہلی آیت:
آیت وضو میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’و امسحوا برء وسکم‘‘ اور اپنے سروں کا مسح کرو۔ (المائدۃ: ۶)
احناف کے مذکورہ بالا اصول کی رو سے یہ حکم خاص اور واضح ہے اور کسی خارجی توضیح اور بیان کا محتاج نہیں ہے، مگر احناف نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو اس کا بیان مان کر اپنا اصول توڑ ڈالا جس میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور اپنی پیشانی پر مسح کیا۔ [1] انہوں نے اسی پر بس نہیں کیا، بلکہ چوتھائی سر کے مسح کی فرضیت کا فتویٰ دے ڈالا۔ [2]
مغیرہ بن شعبہ کی حدیث کا آیت وضو سے کوئی تعلق نہیں :
اگر احناف نے آیت ’’ارکعوا و اسجدوا‘‘ کی طرح مغیر بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو ’’و امسحوا برء وسکم‘‘ کا بیان نہ مانا ہوتا تو ان کی غلطی اور حدیث سے ان کی عدم وابستگی کی شناعت اس کو بیان ماننے سے کم ہوتی اس لیے کہ انہوں نے اس حدیث کو آیت کا بیان مان کر چوتھائی سر کے مسح کی فرضیت کا فتویٰ دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ حدیث سے ان کا تعلق بڑا سطحی ہے۔ درحقیقت مغیرہ بن شعبہ کی حدیث کا تعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مسح سے ہے جو آپ نے اس وقت کیا تھا جب آپ اپنے سر پر عمامہ باندھے ہوئے تھے۔ جبکہ قرآنی آیت میں اس مسح کا بیان ہے جو ننگے سر پر کیا جاتا ہے۔ قرآن میں عمامہ بندھے سر پر مسح کرنے کا کوئی حکم نہیں بیان کیا گیا ہے اور نہ کسی صحیح حدیث میں یہ آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلے سر کی پیشانی پر مسح کیا کہ چوتھائی سر کے مسح کی فرضیت کا دعویٰ کرنا درست ہو، وضو سے متعلق جتنی احادیث آئی ہیں سب میں پورے سر کا مسح ہی بیان ہوا ہے اور قرآن کا اسلوب بھی اس پر دلالت کرتا ہے۔ صحیح مسلم میں جس باب کے تحت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث آئی ہے اس کا عنوان ’’المسح علی العمامۃ‘‘ امام ابو داود اپنی سنن میں جس باب کے تحت یہ حدیث لائے ہیں اس کا عنوان ’’المسح علی الخفین‘‘ اور سنن ابو داود کی جس حدیث میں یہ آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ عمامہ کے اندر ڈال کر سر کے اگلے حصہ پر مسح کیا۔[3] انس بن مالک سے مروی یہ حدیث ضعیف ہے۔ صحیح ترین احایدث کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ پورے سر کا مسح کیا ہے۔
دوسری آیت:
شاہ صاحب نے دوسری جس آیت میں احناف کے اپنے مذکورہ بالا اصول کو توڑ دینے کو دکھایا ہے وہ سورۂ نور کی آیت نمبر ۲ میں ’’الزانیۃ و الزانی‘‘ ہے جو مطلق زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد پر دلالت کرتے ہیں
[1] ابو داود ۱۵۰
[2] ہدایہ ۳۹ ج ۱
[3] ۱۴۲