کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 295
اس حدیث میں جن صحابی کا واقعہ بیان ہوا ہے انہوں نے نماز کے سارے ارکان ادا کیے تھے اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پڑھی ہوئی نماز کو ’’صفتِ صلاۃ‘‘ سے عاری قرار دے دیا اور یہ حکم لگا دیا کہ تم نے نماز پڑھی ہی نہیں ، کیونکہ ان کی نماز اطمینان اور اعتدال سے خالی تھی۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جس طرح نماز میں قرآنی حکم رکوع اور سجدہ فرض ہے اسی طرح نبوی حکم اطمینان و سکون اور اعتدال کے ساتھ نماز پڑھنا بھی فرض ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کے بالکل مساوی اپنے رسول کی اطاعت کا حکم دے کر یہ اعلان فرما دیا کہ قرآن کا حکم اور حدیث کا حکم اپنی فرضیت میں یکساں ہے۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں کسی ایک جگہ اشارۃً بھی حدیث کو ’’واحد‘‘ اور ’’متواتر‘‘ میں تقسیم کر کے دونوں سے حاصل ہونے والے حکم میں تفریق نہیں کی ہے لہٰذا فقہاء، معتزلہ اور متکلمین نے اس مسئلہ میں جو کچھ بھی کہا ہے اور جو اصول بھی بنائے ہیں وہ محض عقلی اور قیاسی ہیں اور ان کو کتاب و سنت کی کوئی سند حاصل نہیں ہے۔ ایک اشکال اور اس کا جواب: خلاد بن رافع رضی اللہ عنہ سے متعلقہ حدیث میں سورۂ فاتحہ پڑھنے کا ذکر نہیں ہے جس سے بہت سے لوگ نماز میں قرائت فاتحہ کی عدم فرضیت پر استدلال کرتے ہیں ، لیکن دو وجہوں سے ان کا یہ استدلال باطل ہے: ۱۔ نماز میں قراء ت فاتحہ کی رکنیت دسیوں صحیح ترین حدیثوں سے ثابت ہے۔ ۲۔ اس واقعہ سے متعلق رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ صراحت ہے: ((… ثم اقرأ بام القرآن و بما شاء اللہ ان تقرأ)) ’’پھر تم ام القرآن پڑھو اور جو اللہ چاہے وہ پڑھو۔‘‘ [1] شاہ ولی اللہ کی گرفت: شاہ ولی اللہ نے مذکورہ بالا احناف کے اصول پر خود انہی کے اعمال کی روشنی میں گرفت کر کے اس کو غلط ثابت کیا ہے، فرماتے ہیں : احناف نے ارشاد الٰہی ’’ارکعوا و اسجدوا‘‘ کی بنیاد پر صرف رکوع و سجود کو فرض مانا ہے اور حدیث: ’’لا تجزیٔ صلاۃ الرجل حتی یُقیم ظہرہ فی الرکوع و السجود‘‘ کی بنیاد پر اطمینان کو فرض نہیں قرار دیا ہے۔ یعنی حدیث کو قرآنی آیت کا بیان نہیں تسلیم کیا۔ لیکن جب ان پر یہ اعتراض کیا گیا کہ انہوں نے اسی طرح کی آیتوں کے لیے احادیث کو بیان مان کر اپنا اصول توڑ دیا ہے تو اس اعتراض کے جواب میں انہوں نے تکلفات سے کام لینا شروع کر دیا ہے۔ شاہ صاحب نے ’’الانصاف‘‘ میں بطور مثال جو آیتیں نقل کی ہیں اور جن کے لیے احناف نے احادیث کو بیان مانا
[1] ابو داود ۸۵۹