کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 294
ابو مسعود بدری انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((لا تجزیٔ صلاۃ الرجل حتی یقیم ظہرہ فی الرکوع و السجود))
’’کسی شخص کی نماز اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک کہ وہ رکوع اور سجدوں میں اپنی پیٹھ بالکل سیدھی نہ کر لے۔‘‘ [1]
اس حدیث میں جو حکم مختصرا دیا گیا ہے وہ خلاد بن رافع رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بڑی تفصیل سے دیا گیا ہے اور یہ حدیث خود انہی سے متعلق ہے، لیکن اس کے راوی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں :
((أن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم دخل المسجد، فدخل رجل، فصلی، فسلم علی النبی صلي اللّٰه عليه وسلم فرد النبی صلي اللّٰه عليه وسلم علیہ السلام، فقال: ارجع فصل، فإنک لم تصل‘‘ فرجع یصلی کما صلی، ثم جاء، فسلّم علی النبی صلي اللّٰه عليه وسلم فقال: إرجع فصل فإنک لم تصل‘‘ ثلاثًا، فقال: و الذی بعثک بالحق ما أحسن غیرہ، فعَلِّمْنِیْ، فقال: إذا قمت إلی الصلاۃ فکبِّر، ثم اقرأ ما تیسر معکَ من القرآن، ثم ارکعْ حتی تطمئن راکعًا، ثم ارفع حتی تعدل قائما، ثم اسجد حتی تطمئن ساجدا، ثم ارفع حتی تطمئن جالسًا، و افعل ذلک فی صلاتک کلہا))
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے تو ایک اور شخص داخل ہوئے اور نماز پڑھی، پھر آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: واپس جا کر دوبارہ نماز پڑھو، اس لیے کہ تم نے نماز پڑھی ہی نہیں ۔ وہ گئے اور اسی طرح پڑھنے لگے جس طرح پڑھی تھی، پھر آئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واپس جاؤ اور نماز پڑھو، اس لیے کہ تم نے نماز پڑھی ہی نہیں ۔‘‘ آپ نے تین بار یہ حکم دیا۔ اس پر ان شخص نے عرض کیا: جس ذات نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اس کی قسم! میں اس کے سوا عمدگی سے نماز نہیں پڑھ سکتا، مجھے سکھا دیجیے۔ فرمایا: جب تم نماز پڑھنے کے ارادے سے کھڑے ہو تو ’’اللہ اکبر‘‘ کہو، پھر قرآن کا جو حصہ تمہیں آسانی سے یاد ہو اس کی تلاوت کرو، پھر اس طرح رکوع کرو کہ رکوع کی حالت میں بالکل مطمئن اور پرسکون ہو جاؤ، پھر اس طرح کھڑے ہو جاؤ کہ اس حالت قیام میں سیدھے ہو جاؤ، پھر سجدہ کرو اور سجدہ کرتے ہوئے بھی پرسکون رہو، پھر اٹھ کر اس طرح بیٹھ جاؤ کہ تمہارا جلوس پرسکون ہو، یہی عمل اپنی پوری نماز میں انجام دو۔‘‘[2]
[1] ابو داود ۸۵۵، ترمذی ۲۶۵، نسائی ۱۰۲۶، ابن ماجہ ۸۷۰، مسند امام احمد ۱۷۲۰۱۔
[2] بخاری ۲۵۲، ۲۹۳، ۶۲۵۱، ۶۲۵۲، ۶۶۶۷، مسلم ۳۹۷، ابو داود ۸۵۶، ترمذی ۳۰۲، نسائی ۸۸۴۔