کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 293
ان پر میرے تبصرے سے زیادہ شاہ ولی اللہ کا تبصرہ وزنی اور اہم ہے اس لیے کہ احناف سے نسبت کے باوجود وہ ایک متبحر، حق گو اور امانت دار عالم تھے اور خود اپنے مسلک کے بارے میں ان کی گواہی غیر احناف کی گواہی سے زیادہ دقیع ہے۔ شاہ صاحب نے احناف کے جو اصول بیان فرمائے ہیں ان میں سرفہرست یہ اصول ہے: ۱۔ خاص اپنے حکم میں واضح ہے اور اس کے ساتھ کوئی توضیحی بیان نہیں جوڑا جا سکتا۔ اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پاک میں جو خاص احکام آئے ہیں وہ خود اتنے واضح اور عملی ہیں کہ ان کی توضیح و بیان کے لیے ان کے ساتھ حدیث کا توضیحی ضمیمہ لگانا درست نہیں ہے، کیونکہ حدیث کے توضیحی بیان کے بغیر اس پر عمل کافی بھی ہے اور درست بھی۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں : متاخرین نے متقدمین کے اس قول سے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ’’إرکعوا و اسجدو‘‘ رکوع کرو اور سجدہ کرو۔ (سورۂ حج: ۷۷) کے بارے میں اختیار کیا ہے اور اس حدیث کو اس کا توضیحی بیان نہیں مانا ہے جس میں یہ آیا ہے کہ ’’کسی شخص کی نماز اس وقت تک مطلوبہ صورت میں ادا نہیں ہوتی جب تک رکوع و سجود میں اپنی پیٹھ پوری طرح سیدھی نہ رکھے۔‘‘ جس کی رو سے مطلق رکوع و سجود کو فرض مانا ہے اور حدیث پر عمل کرتے ہوئے رکوع و سجود میں پیٹھ سیدھی رکھنے کو ضروری نہیں قرار دیا ہے۔ متقدمین کے اسی مسلک سے متاخرین نے یہ قاعدۂ کلیہ بنا لیا کہ ’’خاص اپنے حکم میں واضح ہے اور اس کے ساتھ کوئی توضیحی بیان نہیں جوڑا جا سکتا۔‘‘ تبصرہ:…مذکورہ مسئلہ میں متقدمین کا مسلک سو فیصد غلط ہے، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ… الآیۃ﴾ (النحل: ۴۴) ’’اور ہم نے تمہاری طرف ذکر اس لیے اتارا ہے تاکہ تم لوگوں کے لیے اس چیز کو کھول کر بیان کر دو جو ان کی طرف اتاری گئی ہے۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ بنی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کے نازل کیے جانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ آپ اس کے احکام اور ان پر عمل کے طریقوں کو اپنے قول و عمل سے لوگوں کو بتا دیں ، اگر آپ سے رجوع کیے بغیر ہی قرآنی احکام پر عمل ممکن ہوتا اور مقبول و درست بھی تو پھر آپ کو رسول بنانے اور صرف آپ پر قرآن نازل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس پر مزید یہ کہ قرآن پاک میں آپ کی اطاعت، اتباع اوراوامر و نواہی کی تعمیل پر اتنا زور دینے کی کیا ضرورت تھی؟ حدیث پر ایک نظر: اوپر جس حدیث کا مختصر ترجمہ ’’الانصاف‘‘ کے بیان کی روشنی میں کیا گیا ہے اس کا مکمل متن اور اس کا ترجمہ پیش کر دینا چاہتا ہوں تاکہ اس میں بیان کردہ حکم پوری طرح واضح ہو جائے۔