کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 291
إن علینا بیانہ‘‘ پھر درحقیقت اسے بیان کر دینا ہمارے ذمہ ہے۔ (القیامہ: ۱۹) اور جب یہ معلوم ہے کہ نزول قرآن کا ذریعہ ’’وحی‘‘ ہے تو اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن کے بیان -حدیث- کے نزول کا ذریعہ بھی ’’وحی‘‘ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ براہ راست اپنے بندوں میں سے کسی سے ہم کلام نہیں ہوتا۔ ۳۔ قرآن کی مذکورہ آیت میں یوم آخرت اور اچھی اور بری تقدیر پر ایمان کا کوئی ذکر نہیں ، جبکہ حدیث میں اس کا ذکر ہے تو اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ قرآن پاک یوم آخرت اور تقدیر پر ایمان کے ذکر سے بھرا پڑا ہے، اس لیے اللہ کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان میں آخرت اور تقدیر پر ایمان داخل ہے یا یہ ایمان ’’بما أنزل إلیہ من ربہ‘‘ کے عموم میں داخل ہے۔ قرآن کے ساتھ حدیث کے تعلق کی چوتھی صورت: قرآن کے ساتھ حدیث کے تعلق کی چوتھی صورت یہ ہے کہ قرآن کی طرح حدیث بھی مستقل بالذات ماخذ شریعت ہے اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ’’اسلام کا دوسرا شرعی ماخذ حدیث ہے تو اس سے ہماری مراد شرعی مآخذ کی تعداد بیان کرنے سے ہوتی ہے حدیث کے درجہ کے بیان سے نہیں ہوتی ہمارے ایسا کہنے سے کتاب اللہ پر حدیث کو مقدم کرنا ہرگز لازم نہیں آتا جس طرح رسول کی رسالت پر مطلق اور غیر مشروط ایمان سے اللہ تعالیٰ کی ’’الوہیت مطلقہ‘‘ پر کوئی حرف نہیں آتا۔ اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قرآن میں مذکور عقائد کے علاوہ جو عقائد دیے ہیں اور قرآن میں مذکور شرعی احکام کے علاوہ جو احکام دیے ہیں ان میں آپ کی غیر مشروط اطاعت فرض ہے اور ان میں آپ کی نافرمانی حرام ہے، تو ایسا ہم اللہ تعالیٰ کے صریح حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کہتے ہیں اور قرآن کی طرح حدیث کو بھی مستقل بالذات تشریعی ماخذ قرار دیتے ہوئے ہم اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرتے ہیں اور اس کا ارشاد ہے: ﴿وَ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ احْذَرُوْا فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ﴾ (المائدۃ: ۹۲) ’’اور اللہ کی اطاعت کرو، اور رسول کی اطاعت کرو اور خبردار رہو، اور اگر تم نے اعراض کیا تو جان لو کہ ہمارے رسول پر صرف واضح تبلیغ ہے۔‘‘ اسی آیت کا اسلوب بیان وعید آمیز ہے جس میں ’’وَ احْذَرُوْا ‘‘ کا فقرہ تازیانۂ تنبیہ ہے۔ مطلب ہے کہ اللہ کی نافرمانی اور رسول کی نافرمانی سے خبردار رہو، ہوشیار رہو، چوکنے رہو، کیونکہ اس کا انجام بڑا برا اور عبرت ناک ہے۔ پھر ’’رسولنا‘‘ کی تعبیر کس قدر بلیغ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی اضافت اپنی طرف کر کے اور وہ بھی جمع متکلم کی ضمیر کی طرف کر کے آپ کی اطاعت کی جو اہمیت بیان فرما دی ہے اس کو محسوس تو کیا جا سکتا ہے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح سورۂ نساء میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: