کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 290
اور حدیث کے الفاظ ہیں :
ایمان کے بارے میں جبریل علیہ السلام کے سوال کا جواب دیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((أن تؤمن باللہ، و ملائکتہ، و کتبہ، و رسلہ، و الیوم الآخر، و تؤمن بالقدر خیرہ و شرہ))
’’ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، یوم آخرت پر اور اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لاؤ۔‘‘ [1]
قرآن و حدیث کے بیان میں فرق:
سورۂ بقرہ کی مذکورہ بالا آیت اور حدیث جبریل کے بیان میں جو فرق ہے وہ درج ذیل ہے:
۱۔ آیت مبارکہ میں اصول دین یا ارکان ایمان پر ایمان لانے والوں کے سرفہرست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، جس سے یہ معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے اپنی رسالت پر اور اپنے اوپر نازل ہونے والی ہدایت پر اور تمام اصول دین اور ارکان ایمان پر ایمان لانے کے مکلف تھے اور اس ایمان سے مراد ایسا اقرار ہے جو دل کے یقین و اذعان، زبان کے اقرار و اعتراف اور اس ایمان کے مقتضیات کی عملی تنفیذ سے عبارت ہے، انہی باتوں کی دعوت دینے کے لیے تمام رسول مبعوث کیے گئے تھے اور سب سے پہلے ان پر ایمان لانے کے وہی مکلف بھی تھے۔ جس میں دوسرے اہل ایمان ان کے تابع تھے، اسی وجہ سے ہر رسول اپنے اوپر ایمان لانے والوں کے لیے اسوۂ ایمان و عمل ہوتا تھا اور ہمارے رسول محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی و امی ہمارے لیے اسوۂ ایمان و عمل ہیں ۔ (احزاب: ۲۱)
میں نے ابھی جو کچھ عرض کیا ہے اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے:
((أشہد أنی رسول اللہ))
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔‘‘ [2]
۲۔ آیت میں یہ نہیں فرمایا گیا ہے کہ ایمان لایا رسول قرآن پر، بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ ’’ایمان لایا رسول اس پر جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل کیا گیا ہے‘‘ اور قرآن ہی کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن اور حدیث دونوں کو نازل کیا گیا ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:
﴿وَ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ﴾ (النساء: ۱۱۳)
’’اور اللہ نے تمہارے اوپر کتاب اور حکمت نازل کی ہے۔‘‘
اس آیت میں مذکور لفظ ’’حکمت‘‘ سے مراد حدیث کے علاوہ کچھ نہیں ہے جس پر تفصیلی بحث گزر چکی ہے۔ جس کی تائید اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے ہوتی ہے جس میں اس نے یہ اعلان فرمایا ہے کہ قرآن کا بیان اس کے ذمہ ہے: ’’ثم
[1] مسلم ۱
[2] بخاری ۵۴۴۱