کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 29
التصدیق اور واجب القبول ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ ’’عدل‘‘ فاسق کی ضد ہے اور جب فاسق کی دی ہوئی خبر تحقیق طلب ہے تو ’’عدل‘‘ کی خبر لازماً تحقیق طلب نہیں ہے۔
میں نے ابھی جو کچھ عرض کیا ہے اس کو قرآن پاک ہی کی ایک آیت سے سمجھئے جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ آخرت میں کفار اس کی رویت اور دید سے محروم ہوں گے اس سے یہ لازمی نتیجہ نکلا کہ مؤمنین اللہ تعالیٰ کی رویت اور دید سے سرفراز ہوں گے، کیونکہ آخرت دار الجزاء ہے، ارشاد الٰہی ہے:
﴿کَلَّا اِِنَّہُمْ عَنْ رَبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُوْنَ﴾ (المطففین: ۱۵)
’’ ہر گز نہیں ، یقینا وہ اس دن اپنے رب سے حجاب میں ہوں گے‘‘
حقیقت یہ ہے کہ قرآن یا حدیث میں کسی خبر کی صحت وسقم یا قبول ورد سے متعلق تعدد رواۃ کی طرف اشارہ تک نہیں کیا گیا ہے، اس کے برعکس خبر واحد یا حدیث واحد کے شرعی دلیل وحجت ہونے کی مثالوں سے قرآن اور ارشادات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھرے پڑے ہیں ، جن میں سے بعض کا ذکر ان شاء اللہ آگے کروں گا۔
راوی فقیہ اور غیر فقیہ:
جس طرح کسی حدیث کے شرعی دلیل وحجت ہونے کے لیے تعدد رواۃ کی شرط باطل اور من گھڑت ہے اسی طرح کسی روایت کو قبول کرنے کے لیے اس کے راوی کے فقیہہ ہونے کی شرط بھی اللہ ورسول کے حکم کے خلاف چیلنج ہے اس شرط کا سورۂ حجرات کی زیر استدلال آیت یا کسی اور آیت میں کوئی ذکر نہیں ہے اور نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی صحیح حدیث میں راوی کے فقیہہ ہونے کو ضروری قرار دیاگیاہے، بلکہ اس کے برعکس حدیث میں راویوں کے غیر فقیہہ ہونے کی بھی خبر دی گئی ہے اور یہ بھی ان کی مدح کے ضمن میں نہ کہ مذمت کے ضمن میں ، چنانچہ عبدالرحمن بن مسعود اپنے والد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((نضر اللہ امرأً سمع مقالتی فوعاہا، وحفظہا، وبلغہا، فرب حامل فقہ إلی من ہو أفقہ منہ۔))
’’اللہ اس آدمی کو خوش وخرم رکھے جس نے میری بات سنی، اس کو اپنے دل میں سمویا، اسے اپنے سینے میں محفوظ کیا اور اس کو دوسروں تک پہنچایا، کیونکہ بسا اوقات علم کو حاصل کرنے والا اس کو ایسے شخص تک پہنچاتا ہے جو اس سے زیادہ فقیہہ ہوتا ہے۔‘‘ [1]
یہی حدیث زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے جس کے آخر میں اس فقرہ کا اضافہ ہے: ’’ورب حامل فقہٍ لیس بفقیہ‘‘ بہت سے فقہ کے حامل فقیہہ نہیں ہوتے۔‘‘ [2]
[1] ترمذی: ۲۶۵۔۲۶۵۸۔
[2] ابو داود: ۳۶۶۔ ابن ماجہ: ۲۳۰۔۳۵۰۶۔