کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 289
’’لفظ قوۃ قرآن میں ، جیسا کہ ۶۹ توبہ، ۸۰ ہود، ۶۵ کہف اور ۱۵ فصلت اور دوسری آیات سے واضح ہے عددی قوت MAN PAWER کے لیے بھی آتا ہے۔‘‘ [1]
اصلاحی صاحب عربوں کی تاریخ سے واقف تھے، جاہلی عرب شعراء کا کلام ان کے سامنے تھا اور قرآنی الفاظ اور تراکیب کی تشریح کے لیے وہ عرب شعراء کے کلام سے استدلال کرنے کے بھی بڑے خوگر تھے، پھر آیت میں ’’من قوۃ‘‘ کے بعد ’’و رباط الخیل‘‘ کی تعبیر بھی آئی ہے یہ تمام قرائن اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ اس کا مفہوم آیت کے سیاق و سباق اور نظم کلام سے ہم آہنگ ہو، لہٰذا ’’من قوۃ‘‘ سے عددی قوت مراد لینا حدیث سے پیچھا چھڑانے کی ایک مذموم کوشش ہے۔
قرآن کے ساتھ حدیث کے تعلق کی دوسری صورت:
قرآن کے ساتھ حدیث کے تعلق کی دوسری صورت یہ ہے کہ وہ قرآن کے اجمال کی توضیح کرتی ہے اور اس کی تفصیل بیان کرتی ہے۔ اجمال کے معنی ہیں کسی چیز یا حکم کو مختصرا بیان کرنا، مشکل اور مجمل میں فرق یہ ہے کہ مشکل لفظ کی ’’مراد‘‘ مشتبہ اور نامعلوم ہوتی ہے۔ جبکہ ’’مجمل‘‘ حکم یا چیز تو فی نفسہ معلوم ہوتی ہے، البتہ اس کی ضروری تفصیلات اور اس کی ادائیگی کے طریقے معلوم نہیں ہوتے قرآن پاک میں اقامت نماز کا حکم آیا ہے جو اپنے معنی اور مراد میں واضح ہے۔ لیکن اس اقامت نماز کی تفصیلات، اس کی تعداد، اوقات اور رکعتوں وغیرہ کی تفصیلات نہیں بیان ہوئی ہیں ۔ یہ ساری چیزیں حدیث نے بیان کی ہیں ۔ یہی حال زکوٰۃ، روزہ اور حج کا بھی ہے۔ اسی طرح یہ عملی ارکان اربعہ حدیث کے بغیر ناقابل عمل ہیں ۔
قرآن کے ساتھ حدیث کے تعلق کی تیسری صورت:
قرآن کے ساتھ حدیث کے تعلق کی تیسری صورت ہے کہ شرعی احکام میں ، جن میں عقائد اور اعمال دونوں داخل ہیں مکمل مطابقت ہے، اگر ان میں کوئی فرق ہے تو تعبیر کا فرق ہے یا اختصار و تفصیل کا فرق۔
مثال:…قرآن کے ساتھ حدیث کی مکمل مطابقت کی مثال میں سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۲۸۵ اور حدیث جبریل کے اس فقرے کو پیش کیا جا سکتا ہے جس کا تعلق ایمانیات سے ہے۔ سورۂ بقرہ کی مذکورہ آیت کے الفاظ ہیں :
﴿اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ … الآیۃ﴾ (البقرۃ: ۲۸۵)
’’ایمان لایا رسول اس پر جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل کیا گیا ہے اور مومنوں نے، سب اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے…۔‘‘
[1] ص ۹۳ ج ۳