کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 288
کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو خوف زدہ کرو۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں ’’قوۃ‘‘ کے لغوی مفہوم کے واضح ہونے کے باوجود یہ نہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کس قسم کی طاقت مراد لی ہے اس طرح یہ لفظ مشکل ہے، اس لیے کہ اس میں طاقت کے متعدد وجوہ اور مظاہر کا احتمال ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ارشاد میں یہ واضح فرما دیا ہے کہ ’’قوۃ‘‘ سے مراد تیر اندازی ہے۔ چنانچہ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں : ((سمعت رسول اللہ صلي اللّٰه عليه وسلم و ہو علی المنبر یقول: ’’و أعدوا لہم ما استطعتم من قوۃ‘‘ ’’ألا ان القوۃ الرمی، ألا إن القوۃ الرمی، ألا إن القوۃ الرمی‘‘)) ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا ہے: اور ان کے لیے اپنے مقدور بھر طاقت تیار کرو‘‘ غور سے سن لو: طاقت تیر اندازی ہے، خوب غور سے سن لو: طاقت تیر اندازی ہے، خوب غور سے سن لو: طاقت تیر اندازی ہے۔‘‘ [1] کلام نبوی کا اعجاز دیکھئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پاک کے ایک لفظ کی ایسی تفسیر فرما دی جو نزول قرآن کے وقت کے لیے بھی سو فیصد مناسب تھی، اس کے بعد آنے والے زمانے کے لیے بھی سو فیصد مناسب رہی اور آئندہ کے لیے بھی سو فیصد مناسب رہے گی۔ اس ’’رمی‘‘ میں جہاں اس وقت کی روایتی تیر اندازی داخل تھی، اسی طرح اس میں منجنیق سے سنگ باری، بندوق سے گولی چلانا، توپوں اور ٹینکوں سے گولے باری کرنا، طیاروں سے بم برسانا اور میزائل داغنا یہ ساری چیزیں اس ’’رمی‘‘ میں داخل ہیں ، علامہ رشید رضا تفسیر منار میں تحریر فرماتے ہیں : ’’اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’رمی السہام‘‘ تیر پھینکنے کی تعبیر استعمال کی ہوتی جو اس زمانے میں معروف بات تھی تو بھی اس وقت کے لیے موزوں و مناسب ہوتی، اور اب جبکہ آپ نے صرف ’’رمی‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے تو لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی زبان مبارک سے اس لفظ ’’رمی‘‘ کو ہر قید سے خالی صورت میں اس لیے جاری کر دیا کہ یہ آپ کی امت کے لیے ہر زمانے میں عام اور مناسب رہے۔‘‘ [2] حدیث سے اعراض کیوں ؟ اصلاحی صاحب نے حدیث سے دامن بچانے اور اپنی تفسیر میں اس کا ذکر نہ آنے دینے کے لیے اس لفظ ’’قوۃ‘‘ کی جو تفسیر کی ہے وہ نہایت مضحکہ خیز ہے اور اپنی رائے پر استدلال کرتے ہوئے انہوں نے قرآن پاک کی جن آیتوں کے حوالے دیے ہیں اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ قرآن کے نظام کی بنیاد پر اس کی تفسیر لکھنے والے یہ بزرگ اللہ کی کتاب کو بھی نہیں سمجھتے تھے۔ ذرا اس زیر بحث آیت کے لفظ ’’قوۃ‘‘ کی ان کی تفسیر ملاحظہ فرمائیے:
[1] مسلم: ۱۹۱۷۔ [2] ص ۷۰ ج ۱۰ بحوالہ منۃ المنعم فی شرح مسلم ص ۲۹۶ ج ۳۔