کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 287
پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿لِلَّذِیْنَ أَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَ زِیَادَۃ﴾ اصلاحی کی حدیث بیزاری کی بدترین مثال: تدبر قرآن کا مطالعہ کرنے والے اس بات کی گواہی دیں گے کہ اصلاحی صاحب اپنی اس تفسیر میں محرف آسمانی صحیفوں کے موقع بے موقع طویل سے طویل تر اقتباسات نقل کرنے میں شہرت رکھتے ہیں ، مگر اس زیر بحث آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مذکورہ بالا حدیث نقل کرنے کے روادار نہیں ہوئے، بلکہ ’’زیادہ‘‘ کی غلط تفسیر کر کے اس حدیث سے اپنی بیزاری کا بھی اظہار کر گئے۔ آیت میں ’’و زیادۃ‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں : اور ان پر مزید فضل بھی ہو گا، یہاں اس مزید فضل کی وضاحت نہیں ہوئی ہے۔ دوسرے مقام میں اس کی تفصیل یوں آتی ہے: ’’من جاء بالحسنۃ فلہ عشر أمثالہا‘‘ جو بھلائی لے کر حاضر ہو گا تو اس کے لیے اس کا دس گنا اجر ہے۔ (الانعام: ۱۶۰) اللہ کے بندے! یہ دس گنا أجر تو ’’حسنی‘‘ ہی میں داخل ہے جو اللہ تعالیٰ کے عمومی فضل ہی کا ایک حصہ ہے۔ مگر ’’و زیادۃ‘‘ اس کا خاص فضل ہے جو اس کے تمام فضلوں پر بھاری ہو گا۔ غامدی انہی اصلاحی صاحب کے سعادت مند شاگرد اور صالح پیرو ہیں ان کی تحقیق یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں قعدہ کے جو اذکار بتائے ہیں ان کی پابندی کرنا لوگوں پر لازم نہیں ہے یہ آپ کے پسندیدہ اذکار تو ہیں ، لیکن یہ اذکار سکھاتے ہوئے آپ لوگوں کو ان کا پابند نہیں بنانا چاہتے تھے، اگر وہ چاہیں تو یہ دعا و مناجات بھی کر سکتے ہیں اور چاہیں تو دعا و مناجات کے لیے کوئی اور طریقہ بھی اپنا سکتے ہیں ، لہٰذا سنت صرف یہی ہے کہ ہر نماز کی دوسری اور آخری رکعت میں نماز پڑھنے والا دو زانو ہو کر قعدے کے لیے بیٹھے اس کے علاوہ کوئی چیز بھی اس موقع پر سنت کی حیثیت سے مقرر نہیں کی گئی ہے۔ [1] میرے خیال میں غامدی کی یہ تحقیق کسی تبصرے کی محتاج نہیں ہے، کیونکہ اس کی زد براہ راست نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’اسوۂ حسنہ‘‘ بنائے جانے (احزاب: ۲۱) اور آپ کے ’’متبوع‘‘ بنائے جانے (آل عمران: ۳۱) کے فرمان الٰہی پر پڑتی ہے۔ حدیث سے قرآن کے مشکل کی تفسیر کی دوسری مثال: سورۂ انفال میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ اَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمْ … الآیۃ﴾ (الانفال: ۶۰) ’’اور ان کے مقابلے کے لیے اپنے مقدور بھر طاقت اور گھوڑے باندھ کر تیاری کرو جس کے ذریعہ تم اللہ
[1] ص ۷۶