کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 286
باب ہفتم: قرآن کے ساتھ حدیث کا تعلق قرآن کے ساتھ حدیث کے تعلق کی صورتیں : قرآن اور حدیث کے مطالب کے تتبع، استقراء اور بحث سے قرآن کے ساتھ حدیث کے تعلق کی چار صورتیں سامنے آتی ہیں : ۱۔ مشکل کی تفسیر؛ مشکل: أشکل یشکل إشکالًا سے اسم فاعل ہے باب إفعال کا اسم فاعل مُفْعِلٌ کے وزن پر آتا ہے اور أشکل یشکل إشکالا کے معنی ہیں : پیچیدہ، مشتبہ، اور ہم شکل و ہم مثل۔ اور تفسیر: فسر یفسر کا مصدر ہے۔ جس کا مطلب ہے، کھول دینا، واضح کر دینا، متکلم کے مراد کو متعین کر دینا۔ قرآن پاک کی سورۂ یونس کی آیت ہے: ’’للذین أحسنوا الحسنی و زیادۃ‘‘ جن لوگوں نے نیکی کی، انہی کے لیے ہے حسنِ جزا اور مزید۔ (۲۶) مطلب یہ ہے کہ اللہ کے جو مومن بندے صالح اور نیک اعمال انجام دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے ان اعمال کا بہترین بدلہ دے گا، اور اس کے ساتھ ان کو مزید فضل سے نوازے گا۔ آیت مبارکہ میں ’’زیادہ‘‘ کا لغوی مفہوم تو واضح ہے، لیکن اس سے کیا مراد ہے، مشکل، مشتبہ اور غیر واضح ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ارشاد مبارک میں اس کو کھول دیا ہے اور واضح اور متعین فرما دیا ہے، چنانچہ صہیب رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ((إذا دخل أہل الجنۃ الجنۃ، قال: یقول اللہ تبارک و تعالی: تریدون شیئا أزیدکم، فیقولون: الم تبیض وجوہنا، ألم تدخلنا الجنۃ و تنجنا من النار؟ قال: فیکشف الحجابَ، فما اُعطوا شیئًا أحبَ إلیہم من النظر إلی ربہم عز و جل)) ’’جب اہل جنت، جنت میں چلے جائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا: کیا تم لوگ کچھ اور چاہتے ہو میں تمہیں بڑھا دوں ؟ وہ عرض کریں گے: کیا آپ نے ہمارے چہرے روشن نہیں کردیے، کیا ہمیں جنت میں داخل نہیں کر دیا اور ہمیں دوزخ سے بچا نہیں لیا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر اللہ پردہ کھول دے گا تو ان کی حالت یہ ہو گی کہ ان کے نزدیک اپنے رب عز و جل کی طرف دیکھنے سے زیادہ محبوب کوئی چیز نہیں ہو گی۔‘‘[1]
[1] مسلم ۱۸۱