کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 285
’’مذکورہ بالا یہ اصول اور ان کی طرح کے دوسرے اصول ائمہ فقہ کے کلام کو سامنے رکھ کر خود وضع کیے گئے ہیں اور ابو حنیفہ اور صاحبین سے ان کی روایت و نقل صحیح نہیں ہے، لہٰذا بزدوی وغیرہ کی طرح خود ائمہ متقدمین کے استنباطات کے تناظر میں ان اصولوں پر وارد ہونے والے سوالوں کا جواب دینا ان کے مخالف اصول اور ان کے خلاف وارد ہونے والے سوالوں کے جواب سے زیادہ قابل التفات و توجہ نہیں ہے۔‘‘ (ایضًا) اس کے بعد شاہ صاحب رحمہ اللہ نے فقہ حنفی کی کتابوں سے یہ دکھایا ہے کہ خود فقہائے احناف نے ان اصولوں کو کس طرح توڑا ہے۔ دراصل جب کوئی کتاب و سنت سے ہٹ کر محض قیاس اور رائے یا عقل کی بنیادوں پر کوئی ضابطہ بناتا ہے تو وہ دو قدم بھی اس کا ساتھ نہیں دیتا اور اسے خود اپنے اصولوں اور ضابطوں سے اس کو توڑنا پڑ جاتا ہے جس کی مثالوں سے فقہ حنفی کی کتابیں بھری پڑی ہیں ، اور ان میں تضادات کی بھرمار ہے۔