کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 284
بتا دیجیے کہ وہ کون سے نقاد زبان و ادب ہیں اور وہ کون سے واضح معیارات ہیں جن کی مدد سے ہم کلام عرب کے خالص اور منحول کو ایک دوسرے سے الگ کر سکتے ہیں ؟ انکار حدیث کے ’’اقنوم ثالث‘‘ ہمارے ڈاکٹر افتخار برنی صاحب ہیں ، یہ ائمہ کے انداز میں بات کرنے کے عادی ہیں ، ذرا تیور ملاحظہ ہوں : ’’ہماری معلومات‘‘ کے مطابق عقیدے اور ایمان کا کوئی بھی بنیادی اصول ایسا نہیں جو مجرد خبر واحد سے ہمیں ملا ہو اور جس کی بنا پر کسی شخص کے مسلمان یا کافر ہونے کا فیصلہ ہوتا ہو۔‘‘ (اردو نیوز، جدہ، ۲۲/ مئی ۲۰۰۹ء) ان تینوں ’’اقانیم ثلاثہ‘‘ سے پہلے ما تریدی متکلمین میں شمار ہونے والے فقہائے احناف کا نظریۂ حدیث مستند و مشہور حنفی عالم شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی درج ذیل عبارت میں ملاحظہ فرمائیے: ((ان المسألۃ القالۃ بأن الخاص مُبیَّن و لا یلحقہ البیان، و ان الزیادۃ نسخ، و ان العام قطعی کالخاص، و ان لا ترجیح بکثرۃ الرواۃ، و انہ لا یجب العمل بحدیث غیر الفقیہ اذا نسد بہ باب الرایٔ، و ان لا عبرۃ بمفہوم الشرط و الوصف اصلا، و ان موجب الأمر ہو الوجوب البتۃ)) ’’یہ مسئلہ کہ خاص اپنے حکم میں واضح ہے اور اس کے ساتھ کوئی توضیحی بیان نہیں جوڑا جا سکتا اور قرآن پر کوئی اضافہ نسخ ہے اور خاص کی طرح عام بھی قطعی ہے اور راویوں کی کثرت وجہ ترجیح نہیں ہے اور اگر رائے کا دروازہ بند ہو جائے تو غیر فقیہ کی روایت موجب عمل نہیں ہے اور شرط اور وصف کے مفہوم کا کوئی اعتبار نہیں اور امر کا صیغہ حکم کے واجب ہونے کا متقاضی ہے۔‘‘ [1] میں آئندہ صفحات میں اصلاحی، غامدی، برنی اور فقہائے احناف کے ان دعووں کا مفصل جائزہ لوں گا، اور دلائل سے ان کو غلط ثابت کروں گا، مگر اس سے قبل متأخرین فقہائے احناف کے ان دعووں پر شاہ ولی اللہ کا تبصرہ نقل کر دینا مناسب خیال کرتا ہوں تاکہ تفصیلات جاننے سے پہلے ایک ایسے حنفی عالم اور فقیہ کا نقطۂ نظر سامنے رہے جس کو بجا طور پر اجتہاد کا درجہ حاصل تھا۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں : ((و أمثال ذلک: أصول مخرجۃ علی کلام الأئمۃ، و انہ لا تصح بہا روایۃ عن أبی حنیفۃ و صاحبیہ، و أنہ لیست المحافظۃ علیہا و التکلف فی جواب ما یرد علیہا من صنائع المتقدمین فی استنباطہم، کما یفعلہ البزدوی وغیرہ أحق من المحافظۃ علی خلافہا و الجواب عما یرد علیہ))
[1] الإنصاف فی بیان أسباب الاختلاف: ص ۱۳۵۔