کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 283
تحدید و تخصیص کے مسئلہ کو سوء فہم اور قلت تدبر کا نتیجہ قرار دیتے ہیں ۔[1] جہاں تک حدیث سے قرآن کے نسخ کا مسئلہ ہے تو یہ مختلف فیہ ہونے اور حدیث میں کوئی قابل اعتماد مثال نہ رکھنے کی وجہ سے خارج از بحث ہے، لیکن حدیث سے قرآن کی تحدید و تخصیص کا انکار مکابرہ اور ہٹ دھرمی ہے جس پر آگے بحث آ رہی ہے۔ غامدی صاحب اپنے امام سے دو قدم آگے ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ اخبار آحاد جنہیں حدیث کہا جاتا ہے ان سے دین میں کسی عقیدۂ و عمل کا اضافہ نہیں ہوتا … بلکہ یہ چیز حدیث کے دائرے ہی میں نہیں آتی کہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے۔‘‘ [2] دروغ گو را حافظہ نہ باشد: غامدی صاحب نے اس کتابچے میں فہم سنت کے کچھ راہنما اصول بھی بیان کیے ہیں اور اپنے امام کے برعکس سند حدیث کے باب میں ائمہ رجال کے مواد کو قطعی اور ناقابل حذف و اضافہ قرار دیا ہے جس سے یہ لازم آتا ہے کہ ائمہ رجال کے اصولوں پر پوری اترنے والی احادیث آحاد نہ صرف صحیح، بلکہ قطعی ہیں اس سے ان کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہو جاتا ہے کہ ’’یہ حدیث کے دائرے ہی میں نہیں آتیں کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکیں ؟‘‘ اس طرح کی تضاد بیانیاں ان نئے ’’مدعیان علم‘‘ کی خاص پہچان ہیں ۔ غامدی صاحب کی ایک اور بات ان کی غفلت، نا سمجھی اور دروغ گوئی پر دلیل ہے کہ انہوں نے عربی زبان کے بیش تر لغات کو اہل زبان کے اجماع اور تواتر پر مبنی قرار دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اجماع اور تواتر کے مفہوم ہی سے ناواقف ہیں ان کو شاید یہ معلوم ہی نہیں کہ التہذیب، المحکم، الصحاح، الجمہرۃ، اور النہایہ وغیرہ میں ، امثال، محاوروں اور الفاظ اور ان کے استعمال کے جو قواعد و ضوابط ہیں وہ صدیوں بعد مدون کیے گئے ہیں اور اہل زبان سے ان کی روایت میں روایتِ حدیث کے عشر عشیر اصولوں کی بھی رعایت نہیں کی گئی ہے۔ لیکن چونکہ قرآن کے الفاظ و تراکیب کی تحقیق میں ان کتب لغات اور عرب شعراء کے کلام کو مستند ماخذ مانا جاتا ہے اس لیے غامدی صاحب کو بھی یہ کہنا پڑ گیا کہ ’’اگر اس میں کچھ ’’منحول‘‘ -من گھڑت- کلام بھی شامل ہو گیا ہے، لیکن جس طرح نقد حدیث کے علماء اس کی صحیح اور سقیم روایتوں میں امتیاز کر سکتے ہیں ، اسی طرح اس کلام کے نقاد بھی روایت و درایت کے نہایت واضح معیارات کی بنا پر اس کے خالص اور منحول کو ایک دوسرے سے الگ کر دے سکتے ہیں ۔‘‘[3] مگر غامدی صاحب آپ سے اور آپ کے تمام ہمنواؤں سے ایک سوال ہے اور وہ یہ کہ حدیث کے نقاد بھی معلوم ہیں جن کے وجود اور ان کے علمی مقام و مرتبے کا انکار نہیں کیا جا سکتا، اور حدیث کی صحت و سقم معلوم کرنے کے ان کے وضع کردہ اصولوں اور قواعد و ضوابط کو قطعی اور ناقابل حذف و اضافہ آپ بھی قرار دے چکے ہیں ۔[4] ازراہِ کرم ذرا یہ
[1] ص ۴۱ [2] ص ۷۷ [3] ص ۱۷ [4] ۷۸