کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 282
جاوید احمد غامدی کی ہرزہ سرائیاں امین اصلاحی صاحب نئے اور معاصر منکرین حدیث کے قائد اور راہنما گزرے ہیں ، انہوں نے حدیث کی ایک تعریف، ’’خبر‘‘ پر اپنے باطل اور غلط افکار و نظریات کا قصر تعمیر کیا ہے۔ جس میں جھوٹ اور سچ دونوں کا احتمال ہوتا ہے، میں نے گزشتہ صفحات میں قرآن و حدیث کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر کو حدیث ہی کا نام دے کر ان کے خیالی قصر کی بنیادیں زمین بوس کر دی ہیں اور ’’خبر واحد‘‘ کے بجائے ’’حدیث واحد‘‘ کی شرعی اصطلاح استعمال کرکے، اس کے قابل اعتبار ہونے کی مثالوں اور شرعی حجت ہونے کی دلیلوں کا انبار لگا دیا ہے، یہاں اپنے قارئین کو یہ بتاتا چلوں کہ ’’خبر واحد‘‘ کے دعوی کی بنیاد پر انہوں نے ’’مبادیٔ تدبر حدیث‘‘ میں جو کچھ فرمایا ہے وہ ’’سود خوروں کی اس دلیل سے ذرہ بھر بھی مختلف نہیں ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں کیا ہے، اور فوراً ہی اس کی غلطی واضح فرما دی ہے سود خوروں نے سود کو درست ثابت کرنے کے لیے یہ دعویٰ کیا تھا: ’’إنما البیع مثل الربو‘‘ بیع -خرید و فروخت- تو سود ہی کی طرح ہے۔ (سورۂ بقرہ ۲۷۵) دیکھئے کس ڈھٹائی سے مَقیس فرع اور قیاس کردہ چیز کو مقیس علیہ اصل قرار دے دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی معکوس منطق کو یہ فرما کر باطل قرار دے دیا کہ ’’و احل اللہ البیع و حرم الربوٰ‘‘ اور اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام کر دیا ہے۔ یعنی ایک تو یہ کہ خرید و فروخت حلال ہے اور سود حرام، دوم یہ کہ کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دینے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے تمہیں نہیں ہے۔ لہٰذا اللہ کے بندے ہونے کی حیثیت سے تمہارے اوپر فرض یہ تھا کہ رائے اور قیاس کا سہارا لینے کے بجائے تم اللہ تعالیٰ کے کسی ارشاد کو اپنی دلیل بناتے۔ اصلاحی صاحب اپنی تحریروں میں یہ ’’رٹ‘‘ لگانے سے نہیں تھکتے کہ ’’حدیث رسول‘‘ میں جو شرعی مسئلہ بھی بیان ہوا ہے اس کی اصل اور بنیاد کا قرآن میں ہونا ضروری ہے ورنہ وہ ناقابل تسلیم ہے۔ ’’اصول و مبادی‘‘ کے مصنف جاوید احمد غامدی صاحب نئے ’’مجدد دین‘‘ پیدا ہوئے ہیں ان کا یہ کتابچہ ان کے امام ہی کے افادات سے عبارت ہے۔ علوم حدیث میں ان کا ماخذ بھی الکفایہ ہی ہے، بلکہ اس کے ان مباحث اور صفحات سے زیادہ ایک سطر بھی ان کے مطالعہ میں نہیں آئی ہے جن کا مطالعہ اصلاحی صاحب نے کیا تھا اس کتاب کے گزشتہ صفحات میں ان کے اصولوں کا تفصیلی جائزہ لے چکا ہوں ۔ غامدی صاحب بھی ’’حدیث واحد‘‘ سے قرآن پر اضافے کے منکر ہیں اور حدیث سے قرآن کے نسخ اور اس کی