کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 281
تجد رقبۃ؟ قال: لا، قال: ’’و ہل تستطیع صیام شہرین؟‘‘ قال: لا، قال: فأطعم ستین مسکینًا)) ’’ایک شخص نے رمضان میں اپنی بیوی سے مباشرت کر لی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا شرعی حکم دریافت کیا، آپ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس آزاد کرنے کے لیے کوئی گردن ہے؟ عرض کیا: نہیں ، فرمایا: کیا دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو؟ عرض کیا: نہیں ، فرمایا: تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ۔‘‘ [1] غور فرمائیے اس قدر اختصار کے باوجود کفارہ کا حکم بھی بیان کر دیا اور اس کی ترتیب بھی۔ گیارہواں دعویٰ: یہ دعویٰ اصلاحی صاحب نے اپنی عربی دانی اور حدیث نبوی کی مزاج شناسی کے اظہار کے لیے کیا ہے، ورنہ نہ تو وہ اس کی کوئی مثال ہی دے سکتے تھے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے روایت باللفظ کا سب سے زیادہ اہتمام کیا ہے اور نہ وہ کلام نبوی کی شان ہی بیان کر سکتے تھے یہ حق تو ان محدثین کو حاصل تھا جن کا حاصل زندگی ہی حدیث رسول کا درس و مطالعہ تھا، ایک لطیفہ یہ ہے کہ ڈاکٹر برنی نے بھی ایسا ہی دعوی کیا ہے جو مؤطا کی ایک سطر صحت کے ساتھ پڑھنے سے بھی قاصر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ غرور نفس سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
[1] مسلم: ۱۱۱۱-۸۲-