کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 280
منصور، اوزاعی، شعیب، ابراہیم بن سعد، مالک، ابن جریج، یحییٰ بن سعید، عراک بن مالک، عبدالجبار بن عمر وغیرہ۔ ۴۔ تمام مسالک نے اس کفارہ کا حکم اسی حدیث سے لیا ہے۔ ام المومنین کی حدیث کو کسی نے بنیاد نہیں بنایا ہے اور اصلاحی صاحب کا یہ دعوی جھوٹ ہے کہ اس مسئلہ میں اس حدیث کی وجہ سے کفارہ کے تعین میں بڑا اختلاف پایا جاتا ہے۔ ۵۔ ام المومنین عائشہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کی روایتوں میں ، ہلکت، احترقت، أصبت أہلی، وقعت بامرأتی اور وطئت امرأتی ایک ہی مفہوم کے حامل الفاظ ہیں ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اُن صحابی نے اپنے سرزد ہو جانے والے فعل کے انجام سے اپنی خوف زدگی کے نتیجے میں یہ سارے الفاظ خود ادا کیے ہوں یا اس واقعہ کے راویوں : ابو ہریرہ اور ام المومنین نے مختلف مواقع پر یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے یہ الفاظ استعمال کیے ہوں ، اس کا زیادہ امکان ہے کہ ان صحابی نے گھبراہٹ اور خوف کی حالت میں اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے خود ہی یہ الفاظ استعمال کیے ہوں اور اور بعد میں ان کے راویوں نے جب بھی یہ واقعہ بیان کیا تو کبھی کوئی تعبیر نقل کر دی اور کبھی کوئی اور یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم شخصیت بڑی پُر ہیبت اور با رعب تھی اور پہلی ملاقات میں آپ سے ملنے والا سہم جاتا تھا۔ (شمائل عن علی نمبر ۵) یاد رہے کہ وہ صحابی ایک بدو تھے کوئی ادیب نہ تھے اور نہ کوئی تحریر ہی پڑھ رہے تھے کہ جچے تلے الفاظ استعمال کرتے۔ مزید یہ کہ سید اولاد آدم اور خیر الرسل صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا انوکھا واقعہ بیان کر رہے تھے۔ ۶۔ اگر کسی مسئلہ سے متعلق احادیث ایک سے زیادہ ہوں ، جن میں سے کوئی مفصل ہو اور کوئی مختصر تو مختصر کو مفصل کی روشنی میں سمجھا جاتا ہے اور شرعی احکام کا استنباط مفصل سے کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کے اپنے حکم سے فرعون کے پاس جانے اور اس کو دعوتِ حق دینے کی سرگزشت سورۂ اعراف، سورۂ طہ، سورۂ شعراء، سورۂ قصص اور سورۂ نازعات میں بیان کی ہے، لیکن ہر جگہ اسلوب بیان مختلف ہے، کہیں تفصیل ہے تو کہیں اختصار، کہیں اسلوب بیان نرم ہے تو کہیں تیز و تند، اسی طرح کسی جگہ ایسی باتیں ہیں جو دوسری جگہ نہیں ہیں اب اگر کوئی اس سرگزشت کو بیان کرنا چاہے تو اس کو اپنے سامنے تمام آیتوں کو رکھنا ہو گا۔ ۷۔ جن احادیث میں واقعات بیان ہوئے ہیں جیسا کہ اس زیر نظر حدیث میں تو ان کے راوی صحابہ نے ان کی روایت اس طرح کی ہے کہ ان واقعات کی حقیقی تصویر سامنے آ گئی اور ہر واقعہ کے کرداروں کے الفاظ بھی جوں کے توں دہرا دیے ہیں اور ایسا بھی کیا ہے کہ واقعہ کو اپنے الفاظ میں بیان کر دیا ہے۔ چنانچہ یہی حدیث صحیح مسلم میں ایک جگہ نہایت اختصار کے ساتھ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں آئی ہے، مگر ’’روح مسئلہ‘‘ موجود ہے۔ حدیث کے الفاظ ہیں : ((أن رجلًا وقع بامرأتہ فی رمضان، فاستفتی رسول اللہ صلي اللّٰه عليه وسلم عن ذلک فقال فہل