کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 28
بالتثبت عند نقل خبر الفاسق۔)) اس آیت میں ایک شخص کی خبر کو قبول کر لینے کی دلیل موجود ہے اگر وہ عدل ہو، اس لیے کہ اس میں صرف فاسق کی خبر نقل کرنے کے موقع پر تحقیق سے کام لینے اور غور وفکر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ [1] اس زیر بحث آیت مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اصل شرعی دلیل خبر واحد ہے۔ اور میرے ایک مضمون پر جس میں میں نے عرض کیا تھا کہ: صرف فاسق کی دی ہوئی خبر تحقیق طلب ہے، کسی ثقہ اور عدل کی دئی ہوئی خبر نہیں ، قطع نظر اس کے کہ خبر دینے والا ایک ہے یا متعدد افراد، اعتراض کرتے ہوئے مکتبۂ اصلاحی کے وکیل ڈاکٹر افتخار برنی نے جو یہ فرمایا تھا: اس آیت میں خبر کی تحقیق پر یقینا زور دیا گیا ہے۔ مگر حدیث کے راویوں کی تعداد کی اہمیت سے انکار نہیں کیا گیا ہے۔[2] تو یہ اعتراض بیمار ذہنیت کی پیداوار ہے، موصوف نے اس مختصر سی عبارت میں قصداً کئی غلطیاں کی ہیں : اولًا تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں صرف فاسق کی دی ہوئی خبر کی تحقیق کا حکم دیا ہے، تحقیق پر زور نہیں دیا ہے؛ حکم اور ’’زور‘‘ میں زمین وآسمان کا فرق ہے، زور میں صرف تاکید ہے، جبکہ حکم واجب التعمیل ہے۔ ثانیا جس خبر کا دینے والا ایک ہو، وہی خبر دینے والے ایک سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں آیت میں اس امکان کی نفی کی گئی ہے، رہا یہ دعویٰ کہ آیت میں ’’حدیث کے راویوں کی تعداد کی اہمیت سے انکار نہیں کیا گیا ہے‘‘ مردود اور قرآن میں اپنی رائے سے اضافہ کرنا ہے۔ اس لیے کہ اگر حدیث کی صحت وسقم میں راویوں کی کثرت وقلت کا اثر ہوتا تو اللہ ’’علّام الغیوب‘‘ نے اسے واضح کر دیا ہوتا اور اتنی اہم بات کو ایک ایسے شخص کے فہم واجتہاد پر نہ چھوڑ دیا ہوتا جو قرآن وحدیث کے ایک چھوٹے سے جملے کا ترجمہ بھی نہیں کر سکتا۔ میری اس بات کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی طویل ترین آیت میں ’’لین دین‘‘ کے احکام بیان کرتے ہوئے دو مردوں کو گواہ بنانے کا بھی حکم دیا ہے اور اس ’’دو‘‘ کی اہمیت واضح کرتے ہوئے فرمایا ہے: اگر دو مرد نہ ہوں تو اپنی پسند کے لوگوں میں سے ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنا لو۔‘‘ (سورۃ بقرہ: ۲۸۲) معلوم ہوا کہ سورۃ حجرات کی آیت مبارکہ میں خبر دینے والوں یا روایت کرنے والوں کی تعداد سے صراحتاً یا ضمنًا بحث ہی نہیں کی گئی ہے، بلکہ صرف ان کی عدالت بیان کی گئی ہے، اور وہ بھی اس طرح کہ صرف اس شخص کی دی ہوئی خبر کو قبول کر لینے کے بجائے یا قبول کر لینے سے پہلے اس کی صحت یا عدم صحت کی تحقیق کر لینے کا حکم دیا گیا ہے جو عدالت سے موصوف نہ ہو جس سے یہ لازمی قرار پایا کہ جو شخص عدالت سے موصوف ہو اس کی دی ہوئی خبر تحقیق کے بغیر واجب
[1] الجامع لأحکام القرآن، ص: ۲۲۴ ج ۸ [2] روشنی، ۹ اکتوبر ۲۰۰۹ء