کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 278
نے عرض کیا: میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ پھر بیٹھ گیا، اتنے میں ایک آدمی وہاں ایک گدھا ہانکتے ہوئے آگیا جس کے ساتھ کھانا تھا -حدیث کے راوی عبدالرحمن بن قاسم کہتے ہیں مجھے نہیں معلوم وہ کیا تھا- وہ آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’جلنے والا کہاں ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا: میں یہ ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ لو اور اسے صدقہ کر دو۔‘‘ اس نے عرض کیا: اپنے سے زیادہ محتاج پر؟ میرے اہل خانہ کے پاس تو کھانے کو کچھ نہیں ، فرمایا ’’تو اسے کھا لو۔‘‘[1] مسلم کی روایت: امام مسلم اپنی صحیح میں ام المومنین کی یہ حدیث دو سندوں سے لائے ہیں دونوں کے الفاظ میں قدرے اختلاف ہے۔ پہلی حدیث: ((جاء رجل إلی رسول اللہ صلي اللّٰه عليه وسلم فقال: احترقت، قال رسول اللہ صلي اللّٰه عليه وسلم : ’’لم‘‘ قال: وطئت امرأتی فی رمضان نہارا، قال: ’’تصدق تصدق‘‘ قال: ما عندی شیء، فامرہ ان یجلس، فجاء عرقان فیہما طعام، فأمرہ رسول اللہ صلي اللّٰه عليه وسلم ان یتصدق بہ)) ’’ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا: میں جل گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں ؟ عرض کیا: میں نے رمضان میں دن کے وقت اپنی بیوی سے جماع کر لیا، فرمایا: ’’صدقہ کرو، صدقہ کرو‘‘ عرض کیا: میرے پاس کچھ نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حکم دیا کہ بیٹھ جائے۔ اتنے میں دو تھیلیاں آئیں جن میں کھانا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو یہ حکم دیا کہ اس کو صدقہ کر دے۔‘‘ [2] دوسری حدیث: ((اتی رجل الی رسول اللہ صلي اللّٰه عليه وسلم فی المسجد فی رمضان، فقال: یا رسول اللہ! احترقت، احترقت، فسألہ رسول اللہ صلي اللّٰه عليه وسلم : ’’ما شأنہ؟‘‘ فقال: أصبت أہلی، قال: ’’تصدق‘‘، فقال: و اللہ! یا نبی اللہ، ما لی شیء و ما اقدر علیہ، قال: ’’اجلس‘‘ فجلس، فبینا ہو علی ذلک أقبل رجل یسوق حمارا علیہ طعام، فقال رسول اللہ صلي اللّٰه عليه وسلم : أین المحترق آنفا؟ فقام الرجل، فقال رسول اللہ صلي اللّٰه عليه وسلم : تصدق بہذا، فقال: یا رسول اللہ اغیرنا، فو اللہ! إنا لجیاع، ما لنا شیء قال: فکلوہ)) ’’ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ماہ رمضان میں مسجد میں آیا اور بولا اے اللہ کے رسول! میں جل گیا
[1] بخاری ۶۸۲۲۔ [2] مسلم ۱۱۱۲