کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 277
زیادہ محتاج نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے۔ پھر آپ نے فرمایا اسے اپنے اہل خانہ کو کھلا دو۔‘‘[1] اوپر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کا جو متن اور ترجمہ پیش کیا گیا ہے وہ صحیح بخاری کی روایت ہے۔ صحیح مسلم کی روایت میں بعض الفاظ کم ہیں اور ایک دو الفاظ مختلف بھی ہیں جو بیان واقعہ سے متعلق ہیں ۔ رہا شرعی حکم تو اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ امام بخاری ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت دو جگہ لائے ہیں ۔ (نمبر ۱۹۳۵، ۶۸۲۲) ام المؤمنین عائشہ کی حدیث: عباد بن عبداللہ بن زبیر نے خبر دی ہے کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ((إن رجلا اتی النبی صلي اللّٰه عليه وسلم فقال انہ احترق، قال: مالک؟ قال: أصبت اہلی فی رمضان، فاتی النبی صلي اللّٰه عليه وسلم بمکتل یدعی العرق، فقال: این المحترق؟ قال: انا قال: تصدق بہذا)) ’’ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: وہ جل گیا، فرمایا: کیا ہوا؟ عرض کیا: رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کر بیٹھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ٹوکری لائی گئی جس کو ’’عرق‘‘ کہتے ہیں ، فرمایا: جلنے والا کہاں ہے؟ عرض کیا: میں ، فرمایا: اسے صدقہ کر دو۔‘‘[2] اس روایت کا لفظ لفظ یہ گواہی دے رہا ہے کہ ام المومنین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ مالک، این المحترق اور تصدق بہذا کے علاوہ سب کچھ اپنے الفاظ میں ادا کیا ہے۔ ام المومنین کی دوسری حدیث: ((اتی رجل النبی صلي اللّٰه عليه وسلم فی المسجد، قال: احترقت، قال: مم ذاک؟ قال: وقعت بامرأتی فی رمضان، قال لہ: تصدق، قال: ما عندی شثیء، فجلس و أتاہ إنسان یسوق حمارا و معہ طعام -قال عبدالرحمن: ما أری ما ہو؟- إلی النبی صلي اللّٰه عليه وسلم ، فقال: أین المحترق؟ فقال: ہا أنا ذا، قال: خذ ہذا فتصدق بہ، قال: علی أحوج منی؟ ما لأہلی طعامٌ، قال: فکلوہ)) ’’ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مسجد میں آیا اور عرض کیا میں جل گیا، پوچھا: ’’ایسا کس چیز سے ہوا؟‘‘ عرض کیا: میں رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کر بیٹھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ’’صدقہ کرو‘‘ اس
[1] بخاری ۱۹۳۶، ۱۹۲۷، ۲۶۰۰، ۵۳۶۸، ۶۰۸۷، ۶۱۶۴، ۶۷۰۹، ۶۷۱۰، ۶۷۱۱، ۶۸۲۱۔ [2] بخاری ۱۹۳۵۔