کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 275
پورے قرآن پاک میں لوط علیہ السلام اور دوسرے رسولوں کی کثرت ذکر کے باوجود یہ تعبیر صرف اسی ایک سورت میں آئی ہے۔ حدیث میں عیب جوئی کی ایک اور مثال: اصلاحی صاحب نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ کے ’’بنبیک الذی أرسلتہ‘‘ کی جگہ ’’برسولک الذی أرسلتہ‘‘ کہہ دینے کو ’’روایت بالمعنی‘‘ سے حدیث کے معنی میں ایسے فرق کا سبب قرار دیا ہے جس سے فلسفۂ دین کی تعبیر میں غلطی کا اندیشہ تھا۔ اس فلسفۂ دین یا حقیقتِ دین کا پردہ چاک کرنے کے بعد روایت میں اختلاف سے ان کے غلط استدلال کی ایک اور مثال پیش کر رہا ہوں جس سے ان کی نظر میں احکام میں فرق پڑ سکتا ہے، فرماتے ہیں : ’’ایک روایت میں یہ بیان ہوا ہے کہ ایک بدو نے عمداً رمضان کا ایک روزہ توڑ دیا اور سر پیٹتا ہوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پریشانی کا سبب دریافت فرمایا تو اس نے تمام روداد سنائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو روزے کا جو کفارہ بتایا اس کی روایت میں راویوں کا اختلاف دیکھئے جو روایت بالمعنی ہی کا نتیجہ ہے۔ ‘‘[1] واقعہ کی غلط تصویر: اصلاحی صاحب نے جس حدیث کی روایت میں راویوں کے اختلاف بیان کی تمہید کے طور پر یہ عبارت لکھی ہے اس سے واقعہ کی صحیح تصویر نہیں بنتی اور یہ نہیں معلوم ہوتا کہ وہ جس حدیث میں راویوں کا اختلاف دکھانے جا رہے ہیں اس میں حالت صوم میں جنسی فعل کا کفارہ بیان کیا گیا ہے ایک مختصر سی تمہیدی عبارت میں دقت بیانی کا یہ فقدان صاحب عبارت کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ کسی حدیث کی روایت میں ایسے اختلاف بیان کو بنیاد بنا کر اس کی صحت کو مشکوک بنائیں جو درحقیقت ایسا اختلاف بیان نہیں ہے جس سے اس حدیث سے نکلنے والا حکم متاثر ہوتا ہے، جیسا کہ ان شاء اللہ آئندہ واضح کروں گا۔ اصلاحی صاحب نے اس زیر بحث مسئلہ سے متعلق ابو ہریرہ اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی دو صحیح حدیثوں کو نقل کرنے اور اپنی نظر میں ان کے باہمی اختلاف کو بیان کرنے کے بعدیہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’روایت بالمعنی‘‘ کے فرق نے ایک حکم کو غیر واضح کر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فقہاء کے درمیان کفارہ کے تعین میں بڑا اختلاف پایا جاتا ہے۔ [2] تو عرض ہے کہ یہ بھی ان کی غلط بیانیوں میں سے ایک ہے، کیونکہ حالتِ روزہ میں جنسی فعل کے کفارہ کے مسئلہ میں جمہور اہل حدیث، مذاہب اربعہ اور اہل الظاہر کے درمیان جو اتفاق پایا جاتا ہے ویسا اتفاق شاید ہی کسی مسئلہ میں پایا جاتا ہو۔ مالکیہ نے اس مسئلہ میں دوسروں سے جو الگ راہ اختیار کی ہے وہ کفارہ کی تینوں صورتوں -(۱) گردن آزاد کرنا، (۲) دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا (۳) ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا- میں ترتیب کی عدم پابندی ہے، اور بس نفس کفارہ
[1] ص ۱۰۸ [2] ص ۱۱۰