کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 274
کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تلقین کردہ اور سکھائے ہوئے لفظ کو بدل دیا تھا جو رسول کی رسالت پر ایمان کے منافی تھا اور ان کی اصلاح کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک آنے والے ان لوگوں کو جو آپ کی رسالت پر ایمان کے مدعی ہوں گے۔ یہ حکم دیا ہے کہ وہ آپ کی زبان مبارک سے نکلنے والے کسی شرعی لفظ کو نہ بدلیں اور نہ آپ کی طرف کوئی ایسا لفظ منسوب کریں جو آپ کی زبان مبارک سے نہیں نکلا ہے۔ کیونکہ یہ سب کچھ وحی الٰہی پر مبنی ہے۔ عام دعائیہ کلمات، نماز کے ارکان اور سنن اور ان کے اذکار، غیبی امور کی خبریں ، اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور بعض پیشین گوئیاں ۔ اسی طرح تشریعی احکام وغیرہ سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے الفاظ خاص معانی اور مدلولات رکھتے ہیں ان کی پابندی نہ کرنے سے احکام بدل سکتے ہیں ۔ لیکن اس طرح کی حدیثیں متعدد صحابہ سے مروی ہیں اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر فرمائی ہیں اس لیے اگر ذہنوں میں فتور اور دلوں میں روگ نہ ہو تو ان سے اخذ مطالب میں کوئی دقت نہیں ہو گی۔ براء بن عازب کی حدیث میں بھی نبی کی جگہ رسول کہہ دینے سے حدیث کا مفہوم قطعاً نہیں بدلا تھا، اس لیے کہ نبی اور رسول الگ الگ ایک دوسرے کے مترادف اور ایک جگہ ایک دوسرے سے مغایر ہیں اور نبی کے عام اور رسول کے خاص ہونے کے باوجود نبی فرما کر خود قرآن پاک میں رسول اور نبی دونوں کو مراد لیا گیا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِبْرٰہِیْمَ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاo﴾ (مریم: ۴۱) ’’اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو درحقیقت وہ نہایت راست رو نبی تھا۔‘‘ احادیث احکام سے احکام کے استنباط کے موقع پر اولا تو ساری حدیثیں پیش نظر ہونی چاہئیں جس طرح کسی ایک موضوع سے متعلق تمام قرآنی آیات کا استحضار ضروری ہے۔ ثانیا مجموعی احادیث کو سامنے رکھ کر احکام کا استنباط کرنا چاہیے۔ لوط علیہ السلام کی خدمت میں بصورت مہمان فرشتوں کی آمد کے موقع پر اپنی بدکردار قوم کی گندی خصلتوں کی وجہ سے ان کو جس ذہنی کوفت اور دلی الم کا سامنا تھا اس کا نقشہ سورۂ ہود میں موجود ہے اس سخت آزمائش کے وقت فرشتوں نے یہ کہہ کر ان کو دلاسہ تو دے دیا تھا کہ یہ بدطینت ان تک نہیں پہنچ سکتے۔ (۸۱) مگر وہاں اس سے زیادہ کچھ نہیں فرمایا گیا ہے، لیکن سورۂ قمر میں ، جس میں بہت زیادہ غضب ناکی پائی جاتی ہے یہ بات کھول دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا نور بصارت سلب کر لیا تھا: ﴿وَلَقَدْ رَاوَدُوْہُ عَنْ ضَیْفِہٖ فَطَمَسْنَآ اَعْیُنَہُمْ… الآیۃ﴾ (۳۷) ’’درحقیقت انہوں نے ان کے مہمانوں کو حاصل کرنے کے لیے ان کو ورغلایا تو ہم نے ان کی آنکھیں بے نور کر دیں ۔‘‘