کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 273
اصلاحی کی ہرزہ سرائی: اصلاحی صاحب یہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ’’اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کے وقت کے آداب اور دعا سکھانے کے بعد جب اس حدیث کے راوی حضرت براء بن عازب سے دعا کے الفاظ دہرانے کے لیے کہا تو انہوں نے اس کے آخر میں ’’و بنبیک الذی ارسلت‘‘ کی جگہ ’’و برسولک الذی ارسلت‘‘ کر دیا ان کی اس تبدیلی پر آپ نے ٹوکا اور اصلاح فرما دی، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ایک ایسی غلطی ہو گئی تھی جس کا تعلق دین کی ایک حقیقت سے تھا۔ اس لیے کہ ’’برسولک الذی أرسلت‘‘ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اصل منصب ہے کہ آپ نبی ہیں اور نبی ہونے کے ساتھ ساتھ رسول بھی ہیں واضح نہیں ہوتا۔‘‘ [1] آپ کی توجیہ صحیح نہیں : محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصلاً نبی تھے اور تبعاً رسول تھے یا اصلاً رسول تھے اور تبعاً نبی؟ میں اس بحث میں پڑنا نہیں چاہتا، صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر براء بن عازب رضی اللہ عنہ کے نبی کی جگہ رسول کہہ دینے سے دین کی کسی حقیقت پر پردہ پڑ رہا تھا تو پھر آپ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے بارے میں کیا فرمائیں گے: ’’ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ‘‘ وہی ہے جس نے اپنا رسول بھیجا۔ (سورۃ فتح: ۲۸) کیا ’’رسولک الذی ارسلت‘‘ اور ’’ارسل رسولہ‘‘ میں کوئی ادنیٰ سا فرق ہے؟ کیا نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں بھی دین کی کسی حقیقت پر پردہ ڈال دیا گیا ہے؟ براء کی تعبیر قرآنی ہے: براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی زبان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی دعا دہراتے ہوئے ’’بنبیک الذی أرسلت‘‘کی جگہ ’’و برسولک الذی أرسلتہ‘‘ کے الفاظ اس لیے نکل گئے تھے کہ پورے قرآن پاک میں دو جگہوں کو چھوڑ کر (اعراف ۹۴، زخرف ۶) فعل ’’ارسال‘‘ کے ساتھ رسول ہی کا ذکر آیا ہے۔ یہ میں اس وجہ سے کہہ رہا ہوں کہ پوری دعا کے الفاظ انہوں نے صحیح دہرائے ہیں ، پھر کیا وجہ ہے کہ اس جگہ انہوں نے الفاظ بدل دیے دراصل قرآن پاک میں جس کثرت سے ’’ارسلنا‘‘ کے ساتھ رسول کا ذکر آیا ہے اس کی وجہ سے ان کی زبان سے بے ساختہ ’’و برسولک الذی ارسلت‘‘ نکل گیا۔ ان کے ذہن میں نہ آپ کی فلسفیانہ توجیہ تھی اور نہ دوسرے شراح حدیث کی توجیہات۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تنبیہ کی اصل وجہ: براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے ’’و بنبیک الذی أرسلت‘‘ کی جگہ ’’وبرسولک الذی ارسلت‘‘ کہہ کر کوئی عقائدی یا شرعی غلطی نہیں کی تھی اور نہ اس کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اصلاح فرمائی تھی۔ دراصل ان کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی
[1] ص ۱۰۸