کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 272
انہوں نے پہلے تو ’’روایت بالمعنی‘‘ کا ایک نیا مفہوم متعین کیا ہے، پھر اس کی کمزوریاں دکھائی ہیں اور اپنی بدنیتی کی وجہ سے ٹھوکر پر ٹھوکر کھاتے چلے گئے ہیں ۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث کا متن پیش کرنے سے قبل یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سکھائی ہوئی دعا کو دہراتے ہوئے انہوں نے اس کے ایک فقرہ: ’’و بنبیک الذی ارسلت‘‘ کی جگہ ’’و برسولک الذی ارسلت‘‘ کہہ دیا تھا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تنبیہ فرما دی اور اپنے ہی الفاظ کو ادا کرنے کی تاکید فرما دی۔ حدیث کا متن: ((عن البراء بن عازب قال: قال النبی صلي اللّٰه عليه وسلم : إذا أتیت مضجعک فتوضأ وضوء ک للصلاۃ، ثم اضطجع علی شقک الأیمن، ثم قل: اللہم أسلمت وجہی إلیک، و فوضت أمری إلیک، و ألجأت ظہری إلیک رغبۃ و رہبۃ إلیک، لا ملجأ و لا منجا منک إلا إلیک، اللہم آمنت بکتابک الذی أنزلت و بنبیک الذی أرسلت، فإن مت من لیلتک،فأنت علی الفطرۃ، و اجعلہن اخر ما تتکلم بہ، قال: فرددتہا علی النبی صلي اللّٰه عليه وسلم فلما بلغت: اللہم آمنت بکتابک الذی أنزلت، قلت: و برسولک الذی أرسلت قال: لا، و بنبیک الذی أرسلت)) ’’براء بن عازب سے روایت ہے، کہتے ہیں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جب تم اپنے بستر پر جانے کا ارادہ کرو تو نماز کے لیے اپنے وضو کی طرح وضو کرو۔ پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاؤ، پھر کہو: اے اللہ! میں نے اپنے آپ کو تیرے حوالے کیا، اپنا معاملہ تیرے سپرد کیا، اور اپنے تمام امور میں تجھ کو سہارا بنایا، یہ سب کچھ میں نے تیری رضا کی خواہش اور تیری ناراضگی کے خوف کے جذبے سے کیا، تیرے سوا کوئی جائے پناہ نہیں اور تیرے عذاب سے نجات صرف تیرے پاس ہے، اے اللہ! میں تیری اس کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل کی ہے اور تیرے اس نبی پر ایمان لایا جس کو تو نے بھیجا ہے۔ پس اگر اسی رات تمہاری موت آ گئی تو تم فطرت -توحید- پر مرو گے۔ ان کلمات کو اس دن کے اپنے آخری کلمات بنا لو۔ کہتے ہیں : جب ان کلمات کو یاد کرنے کے لیے آپ پر ان کو دہراتے ہوئے میں آمنت بکتابک الذی أنزلتہ‘‘ تک پہنچا تو کہہ دیا: ’’و برسولک الذی ارسلت‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ، ’’و بنبیک الذی أرسلت‘‘[1]
[1] بخاری ۲۴۷، ۶۳۱۱، ۶۳۱۳، ۶۳۱۵، ۷۴۸۸، مسلم ۲۷۱۰۔