کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 271
یہ حدیث زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔اس مضمون کی حامل احادیث عبداللہ بن مسعود، انس بن مالک، ابوسعید خدری، عبداللہ بن عمرو بن عاص، نعمان بن بشیر، معاذ بن جبل، ابوہریرہ اور ابو الدرداء رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہیں ۔ [1] نَضَّرَ یُنْضِّرُ کے معنی ہیں : ترو تازہ رکھنا، خوش و خرم رکھنا، بارونق بنانا اور رکھنا وغیرہ، محدثین اور رواۃ حدیث کے حالات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر دور میں یہ لوگ دوسرے لوگوں سے اس اعتبار سے ممتاز اور نمایاں رہے ہیں کہ ان کے چہروں کی رونق اور ان کی تروتازگی ان کے اطمینان قلب اور ان کی باطنی سعادت و مسرت کی غماز رہی ہے، جبکہ مادی طور سے ان کی اکثریت فقر و فاقہ سے دو چار رہی ہے۔ حدیث میں ’’فقہ‘‘ سے مراد اصطلاحی فقہ نہیں ، بلکہ علم مراد ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد سے یہ واضح فرما دیا ہے کہ حفظ حدیث اور روایت حدیث کے لیے بہت زیادہ علم کی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن پاک کے لاکھوں حفاظ اس کا ایک لفظ بھی نہیں سمجھتے لیکن حفظ میں سند کا درجہ رکھتے ہیں ۔ حدیث کے مطابق حفظ و ضبط راوی کی بنیادی صفت ہے، رہی اس کی عدالت تو اس کا ذکر اس لیے نہیں فرمایا کہ جو لوگ اس حدیث کے مخاطب ہیں ان کا عدالت کی صفت سے موصوف ہونا محل بحث تھا ہی نہیں اور جھوٹی اور باطل روایتوں کے ناقل و راوی ’’رواۃ حدیث‘‘ میں شمار نہیں ہوتے۔ اس حدیث سے اس ’’روایت بالمعنی‘‘ کی جڑ کٹ جاتی ہے جس کی ترویج منکرین کرتے ہیں ، کیونکہ حدیث کے بعض الفاظ کی ان کے مترادف کے ذریعہ روایت اس میں شمار نہیں ہوتی اور ایسا نہایت ناگزیر حالت میں کیا جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ ’’راوی کی ذہانت‘‘ کی بات وہی شخص کر سکتا ہے جو حدیث اور روایت حدیث کے مفہوم سے ناآشنا ہے؛ درحقیقت حدیث کے اصل الفاظ کی جگہ مترادف الفاظ لانا ذہانت نہیں ، زبان کے علم کا متقاضی ہے۔ پھر جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے حدیث کا راوی، اس کا ناقل اور مبلغ ہوتا ہے، اس کے فرائض منصبی میں ’’مروی عنہ‘‘ کی ترجمانی یا اپنی مرویات کی وضاحت بھی داخل نہیں ہے، اگر وہ کسی بات کی وضاحت کرتا بھی ہے تو مروی عنہ کے حوالہ سے کرتا ہے اس میں بھی وہ ایک طرح کا ناقل ہوتا ہے۔ براء بن عازب کی حدیث سے استدلال بے محل ہے: اللہ تعالیٰ اصلاحی صاحب کو معاف فرمائے، انہوں نے لوگوں میں ’’حدیث بیزاری‘‘ کو عام کرنے کے لیے کوئی کوشش اٹھا نہیں رکھی ہے اور ذخیرۂ حدیث کو ناقابل اعتبار قرار دینے کے لیے مغالطے پر مغالطے دیے ہیں اسی طرح وہ اسلامی شریعت کے اس دوسرے بنیادی ماخذ کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے ہیں ، البتہ ایک عالم دین اور مفسر قرآن کی حیثیت سے اپنی شناخت پر ’’کالک‘‘ مل دی ہے۔
[1] ترمذی ص ۲۰۲۵ ج ۲، تحقیق فتح المغیث ص ۱۶۲ ج ۲۔